ہماری قومی زبان اُردو اورہمارا پاکستان

746
کاشف شاہ
    1. کاشف شاہ
      قائداعظم محمد علی جناح نے 8مارچ 1944ء کو علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’ہم پاکستان بھیک یا دعائیں مانگ کر حاصل نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے اس مقصدکے لیے جدوجہدکرکے ہی حاصل کرسکتے ہیں‘۔ تحریک پاکستان کے دوران بے شمار جانی ومالی قربانیاں دینے کے بعد ملک تو معرض وجود میں آگیا اور پھر1971ء میں دولخت بھی ہوگیا لیکن قومی زبان اردو کا مسئلہ آج بھی حل طلب ہے۔
      ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم اور عوامی امنگوں کے مطابق ناصرف قومی زبان اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جائے بلکہ اس کا نام تبدیل کرکے ’پاکستانی‘ زبان رکھا جائے اس سلسلے میں سیاسی ومذہبی جماعتوں، سماجی تنظیموں، وفاقی وصوبائی حکومتوں کی جانب سے عملی اقدامات کیے جائیں کیونکہ اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے جتنا کام پاکستانی ادیبوں وشعراء نے کیا اتناکام برصغیرکے دیگر ممالک میں کہیں نہیں ہوا۔ ان میں شاعر مشرق علامہ اقبال، بابائے اردو مولوی عبدالحق، فیض احمد فیض، احمد فراز، پروین شاکر،میرگل خان نصیر،شیخ ایاز اور دیگربے شمار حضرات شامل ہیں۔ داغ دہلوی نے کہا ہے کہ
      اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
      سارے جہاں دھوم ہماری زباں کی ہے
      پاکستان کے عوام میں یکجہتی پیدا کرنے والا سب سے اہم عنصر اسلام ہے کیونکہ مذہب کی بنیاد پر ہی یہ ملک معرض وجود میںآیا ہے‘ بحیثیت قوم ہماری اپنی زبان، ثقافت اور فطرت ہے جو ہمیں اقوام مغرب اور دیگر سے ممتاز کرتی ہے جس کے تحت ہم اپنی زندگی گزانا پسند کرتے ہیں‘ اردو واحد زبان ہے جو ملک بھر میں بولی، لکھی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے‘ برصغیر کے مسلمانوں کا صدیوں پرانا ورثہ ہے جو ان کی غیرت وحمیت کی علامت ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
      اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر



  1. خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولؐ ہاشمی
    اردو کو سرکاری زبان قرار دینے سے عوام کا راستہ سرکاری خط وکتابت اور قوانین تک کھل جائے گا‘ کوئی بھی معاشرہ جزا اور سزا کے تصور سے خالی نہیں ہے‘ اچھے کام پر لوگوں کو انعام سے نوازا جاتا اور ان کی توقیر کی جاتی ہے جب کہ جرائم پر سزا دی جاتی ہے‘ ہمارے ملک میں سرکاری زبان انگریزی ہونے کے باعث یہ تصور ختم ہوکررہ گیا ہے۔ ایک عام آدمی روز مرہ کے سرکاری اور عدالتی امور کے لیے انگریزی کا محتاج ہے جو وہ لکھ، بول اور سمجھ نہیں سکتا‘ ملک میں لاقانونیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام کو ملکی قوانین کے بارے میں علم ہی نہیں تو وہ کیا ان پر عمل اور کیا اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ پُرامن پاکستان کے لیے اردو کو سرکاری وفتری زبان قرار دینا ضروری ہے تاکہ عوام ملکی قوانین کو سمجھ کر ان پر عمل کرسکیں کیونکہ امن وامان کے بغیرکوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔
    انگریزی زبان کو مسلط کیے رکھنے کی ضد نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے‘ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اردو کو سرکاری و دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ اس بنچ پر میر تقی میر کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
    بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
    ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
    پیپلزپارٹی کی حکومت نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں شکست خوردہ مملکت کو ناصرف نئے سرے سے استور کیا بلکہ 1973ء کا متفقہ آئین دینے کے ساتھ اس ملک کو قومی زبان اردو بھی دی جو ملک بھرکے عوام کو خیبر سے کراچی تک جوڑتی ہے۔ اردو کا نام تبدیل کرکے پاکستانی رکھنے سے ملک میں اتحاد ویکجہتی کی فضا پیدا ہو گی جو ہمیں بحیثیت قوم زندہ کرسکے گی اس سے پاکستانی ثقافت کو نمایاں فروغ ملے گا اور عالمی برادری اچھی طرح سمجھ لے گی کہ جس طرح جاپان، چین، عرب ممالک، فرانس اور انگلینڈ میں حسب ترتیب جاپانی، چینی، عربی، فرانسیسی اور انگریزی بولی جاتی ہے اس طرح پاکستان میں پاکستانی بولی جاتی ہے جو دنیا کے لیے مثبت پیغام ہو گا۔ آج ملک کے ہر حصے میں فرقہ واریت، صوبائیت اور قومیت پرستی کی باتیں ہورہی ہیں ہر ایک اپنے حقوق کی بات کرتا جب کہ فرائض کو نظر انداز کردیتا ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے لیے خاص طور پر بعض جماعتیں افسوس ناک طریقے سے ان حربوں کو استعمال کرتی آرہی ہیں۔ ان باتوں کو شاعر مشرق نے اپنے اشعار میں اس طرح قلم بند کیا ہے۔
    حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
    کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
    فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
    کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
    ہمیں قومی یکجہتی کے لیے تمام عصبیتوں کی زنجیریں توڑ کر اپنے ملک کے نقصان کو اپنا ذاتی نقصان سمجھنا ہوگا بلکہ قومی وسیع النظری اپناتے ہوئے ملک میں قانون کی حکمرانی، تعلیم کے فروغ اور جدید ہتھیاروں کی تیاری پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ کسی بھی قوم کو زندہ رکھنے کے لیے یہ تینوں چیزیں آکسیجن کا کام کرتی ہیں۔ یورپ کا ملک اسپین جہاں مسلمانوں نے 750سال تک حکومت کی‘ وہاں کے مسلم حکمران حکم ثانی بن عبدالرحمن ثالث نے اپنے قابل بھائی مغیرہ بن عبدالرحمن ثالث کو نظر انداز کرکے نابالغ بیٹے 11سالہ ہشام ثانی بن حکم ثانی کو اپنا ولی عہد بنا دیا جس کے باعث ملک کا نظم ونسق اور دفاع تباہ وبرباد ہوگیا۔ اس کے بعد تمام صوبوں کے گورنر خودمختار ہوگئے اور ملک میں طوائف الملوکی پھیل گئی‘ ترقی اور جدید علوم ضائع ہونے لگے لیکن اسی دوران وہاں ایک ادارہ وجود میں آگیا جس سے وابستہ مسلمان، عیسائی اور یہودی ماہرین نے مسلمانوں کی اس وقت کی جدید علوم کی کتابوں کے ترجمے یورپی زبانوں میں کرنا شروع کردیے کیونکہ وہ جانتے تھے ان کتب سے استفادہ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب ان کا ترجمہ یورپی زبانوں میں کرلیا جائے۔ اسی طرح پاکستان کی تعمیر وترقی اور امن واستحکام کے لیے جدید یورپی علوم کی کتابوں کا ترجم اردو زبان میں ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں انگریزی بولنا ہی قابلیت کی معراج سمجھ لیا گیا ہے۔ اسپن میں مسلمانوں کی نادانیوں کی وجہ سے جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اس کے لیے مرزا غالب کا شعریہ کہا جاسکتا ہے۔
    نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
    بہت بے آبرو، ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
    وسطی ایشیا سے آنے و الے یک بعد دیگر مسلم حکمران اردو کی بنیاد رکھنے کے بجائے اپنی مادری زبانوں (عربی، فارسی، ترکی) کو ہندوستان میں رائج کرتے تو ایک ہزار سال حکومت کرنے کے بجائے ان کی سلطنتیں ایک دوصدیوں میں ہی ختم ہو جاتیں۔ عمرکوٹ سندھ میں پیدا ہونے والے مغل تاج دار جلال الدین اکبر نے ہندوستانی ریاستوں کو ’اردو‘ کی مدد سے وحدت کی لڑی میں پرو دیا جو فارسی، عربی، ترکی اور دیگر علاقائی زبانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں اتحاد واتفاق برقرار رکھنے کی خواہش ہر محب وطن پاکستانی کے دل میں ہے۔ ہمارا اتحاد واتفاق اس لیے ہے کہ ہم سب ایک اللہ تعالیٰ کے ماننے والے اور ایک رسولؐ کے امتی ہیں‘ ہمارے مفادات اور مقاصد مشترکہ ہیں‘ اس اتحاد ویکجہتی کو ہماری قومی زبان اردو بھی تقویت دیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اردو کا نام تبدیل کرکے ناصرف ’پاکستانی‘ رکھا جائے بلکہ اس کو سرکاری دفتری زبان قرار دینے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔ ضرب عضب آپریشن کے ذریعے امن وامان کی صورت حال بہت بہتر ہے جس کے باعث سرمایہ کاری کے لیے فضا ساز گار ہوتی جارہی ہے جو بہت خوش آئند عمل ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالی کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتاہوں۔
    یا رب نگاہ بد سے چمن کو بچائیو
    بلبل بہت ہے دیکھ کے پھولوں کو باغباغ