دائرے میں سب کچھ ہے۔ ۔ ۔ ۔ (افسانہ) اسما صدیقہ

611

’’آخر تم چاہتی کیا ہو ماہا یہ اتنا اچھا تو رشتہ ہے، لڑکے کی اچھی جاب، تعلیم خاندان مالی حیثیت سب تو ٹھیک ٹھاک ہے مگر یہ تمہاری میں نہ مانو کی ضد میری سمجھ سے تو باہر ہے‘‘ موبائل میں ایک ہینڈسم نوجوان کی تصویر دکھاتے ہوئے امّی بے تابی سے کہہ رہی تھیں یہ تصویر کیا تھی ماں کے لیے خوشی کی ایک نوید تھی جسے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ منسوب دیکھنا چاہ رہی تھی۔
’’پلیز امّی ذرا ابھی اور ٹہر جائیں میں ایک روایتی قید والی زندگی نہیں بسر کرنا چاہتی مجھ سے سختیوں میں نہیں جیا جائے گا یہ ملّا ٹائپ لوگ نا خاصے کنزرویٹو ہوتے ہیں مجھ کو سات پردوں میں بٹھا دیںگے مجھ پہ پلیز ایسے فیصلے ہر گز مسلّط نہ کریں‘‘ وہ ملتجیانہ انداز میں کچھ ایسے بولی جیسے کسی دہشت گرد یا وڈیرے کے خاندان میں اس کی قسمت کا فیصلہ ہورہا ہو۔ ’’توبہ کرو میری بچّی ہم اگر ایسے ہی مسلّط کرنے والے ہوتے تو نہ تم سے رائے لیتے نہ ہی یہ تصویر دکھاتے بلکہ ذکر بھی نہ کرتے مگر یاد رکھو یہ بات حقیقی زندگی اور ڈراموں کی فلمی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے، بری بھلی سمجھانا ہمارا فرض ہے یوں بھی ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی اور اب تو چاروں طرف دھوکہ ہی دھوکہ ہے بڑوں کو کھرے کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے خدا نہ کرے موقع نکل گیا تو پچھتائو گی‘‘امّی اس کو کس کس طرح سمجھائے جارہی تھیں۔
’’ہاں باجی لڑکا تو ہینڈسم اور پڑھا لکھا لگ رہا ہے ہلکی سی داڑھی ہی تو ہے جو بہت جچ رہی ہے آپ دیکھیے خوش رہیںگی‘‘
چھوٹی بہن زوہا بزرگانہ انداز سے تصویر دیکھتے ہوئے پیش گوئی کررہی تھی۔
’’چھوٹی ایسا لگ رہا ہے نا تو تم کرلو نا بن جانا روایتی قیدی مگر خبردار میرے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش مت کرنا‘‘ اس نے الٹا حملہ کردیا۔
nisfDunya2a
’’نہ بھئی ابھی فی الحال تو یہ منزل دور ہے میری میرا ارادہ تو لیکچرار بننے کا ہے میں کتابوں میں ہی قید بھلی آپ جانیں اور یہ تصویر‘‘ تھرڈ ایئر کی اسٹوڈنٹ زوہا نے بقراطیت سے کہا۔
’’ بہرحال مجھ کو لیکچر دینے کی ضرورت نہیں گھسی رہو کتابوں میں‘‘ ماہا نے پھر ڈانٹ پلائی امّی دونوں کو چپ کرانے لگیں۔
ماہا کو انٹر کیے 3 سال ہوچکے تھے یہ انٹر بھی دھکا اسٹارٹ پہ ہوا تھا اس کے والد عبدالکریم کی اسٹیشنری کی دکان تھی سارا دن ان کے خریدار اسٹوڈنٹ اور ان کے والدین ہوا کرتے تھے وہ خود تو اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے تھے مگر اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے آرزو مند تھے ان کی سب سے بڑی بیٹی ماہا پڑھنے سے زیادہ فیشن اور موج میلے کی دلدادہ تھی البتہ اس سے چھوٹی زوہا کو پڑھنے کا تھوڑا شوق تھا وہ بی اے سال اول میں تھی پھر اس سے چھوٹا رمیز فرسٹ ایئر اور سب سے چھوٹا معیزمدرسے میں پڑھتا تھا ماہا کے لیے والد کی خواہش تھی کہ آرٹس ہی سہی آگے پڑھے کیونکہ آج کل کی لڑکیوں کا پڑھنا بہت ضروری ہوگیا ہے آگے کا کسے پتہ کہ کیسی قسمت ہوتی ہے خدا نہ کرے کچھ ایسے ویسے ہوگیا تو خود کو تو سنبھال لے اچھے نصیبوں اور سکھی زندگی کی دعا کون نہیں کرتا مگر آدمی ہر چیز کے لیے بہر حال تیار رہے ادھر ماہا کی دلچسپی ہنسنے بولنے اور انجوائے کرنے اور ملنے ملانے میں تھی کتابوں میں گھسے رہنے سے اسے ہول اٹھتا تھا لاکھ جتن کے باوجود اشتہاری دنیا پہ مرمٹنے والی اس لڑکی کا ذہن حقیقت اور سنجیدگی کی طرف آتا ہی نہ تھا والدین کو اس بات کی تشویش تھی غور سے دیکھیں تو یہ نوخیزلڑکی کا تلخ حقیقت سے فرار تھا اور فرار میں بڑا مزہ ہوتا ہے مگر واہمہ ہمیشہ یا تو بندگلی میں لے جاتا ہے یا دلدل میں دھنسا کے چھوڑتا ہے۔
یہ گھرانہ تو مڈل کلاس تھا کوئی بات نہیں لوئر کلاس بھی تو جیتے ہیں پڑھتے لکھتے بھی ہیں تنکا تنکا جوڑ کر ہی سہی اولاد کی شادی بھی کرتے ہیں اللہ سب کی لاج رکھتا ہے مل بانٹ کر دکھ سکھ میں بدل ہی جاتے ہیں با با سخت مزاج تھے خاصے مگر اب اتنا بھی نہیں انٹرنیٹ اور اسمارٹ موبائل تو نہیں مگر ٹی وی اور موبائل تو تھے نا ہاں اب جاکر امّی نے بچت کرکے ایک اسمارٹ موبائل لے لیا تھا جو ماہا اور اس کی امّی ماہ جبیں کا مشترکہ تھا وجہ یہی ماہا کے رشتے کی تھی امّی کا کنٹرول رہتا تھا اور اس پہ وہ نگرانی رکھتیں اور ماہا شرطیہ استعمال کرلیتی تھی اکثر اتنی نگرانی پہ الجھ جایا کرتی امّی تھوڑا بہت سلائی کرکے اضافی خرچہ نکال لیتیں ساتھ وہ بھی لگ ہی جاتی پھر اس کو سلائی کا کورس بھی کروایا گیا گھر کے کاموں میں کبھی کوئی ڈش ٹرائی کرنی صفائی ستھرائی اور دوسرے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹالیتی تھی یہ اس کی مصروفیت تھی پھر شغل کے طور پر T.V تھا بڑا استاد مارننگ شو تو اس کی جان تھے امّی بھی دیکھ لیتیں کہ ذرا دل بہلانے میں ہرج ہی کیا ہے روپ نکھارنے اور پرسنل گرومنگ کی تھوڑی بہت اجازت مل ہی جاتی مگر بڑی کڑی شرائط کے ساتھ کہ یہ بنائو سنگھار اگلے گھر جائو تو خوب کرنا اس کے علاوہ امّی چادر کی پابندی لازمی کراتیں لڑکیوں کی آزاد روی کے ہولناک انجام بھی خبریں بھی اس T.V اسکرین پر چلتی رہتیں کہ کیسے شوق پورے کرنے کے چکر میں لڑکی نے سب گنوا دیا خاندان بھر کے منہ پر کالک مل دی وہ کہیں کی نہیں رہی ماں کوئی اتنی سوجھ بوجھ نہیں رکھتی تھیں مگر اٹھتے بیٹھتے کہا کرتی تھیں ’’بیٹا یہی عزت تو ہمارا سارا اثاثہ ہے حق حلال کے ساتھ جیون بتانا کوئی قید نہیں ہمار افخر ہے شرم و حیا کے سنگھار اور عزت و آبرو کے زیور ہیروں سے بڑھ کے قیمتی ہوتے ہیں۔ پیسہ لٹ جائے تو پھر آسکتا ہے مگر عزت چلی گئی تو کبھی واپس نہیں آتی یہ انمول خزانہ ہے‘‘ امّی سچ سامنے رکھ دیا کرتیں۔
’’آپ کی ان ہی باتوں کی وجہ سے میں نے پارلر تک کا کورس نہیں کیا بلکہ میرا ارادہ بھی کوئی نہیں ہے مگر امّی جو بہتر آپ نے مجھ کو سکھایا کورس کروایا اس کو تو آزمانے دیں بس ایک چھوٹا سا بوتیک کھولنے دیں پھر کرتی رہنا شادی کا شوق پورا‘‘ وہ اپنی ضد سامنے رکھ دیتی۔
’’ضرور میرے دل کے ٹکڑے ضرور کھول لینا بوتیک مگر اگلے گھر جاکر‘‘ امّی کا آگے سے جواب اکثر یہی ہوتا۔
اس کے پہلے بھی تین چار رشتے آئے مگر کبھی ماہا کی ضد آڑے آتی کبھی کچھ اعتراض والدین کو ہوا مگر اب کے جو رشتہ ربیعہ خالد نے بتایا تھا وہ والدین کو بہت پسند آیا تھا اور نا پسند آنے کا کوئی سوال بھی نہ تھا اچھے رشتے ویسے ہی بہت مشکل سے ملتے ہیں خصوصاً مڈل کلاس گھرانوں میں پھر کیوں ناقدری کی جائے مگر ماہا باغیانہ حد تک ضد دکھارہی تھی والدین بڑی الجھن میں تھے اس کو کیسے راہ پر لاتیں اسے آخر انتظار کس کا ہے؟ عجیب احمق لڑکی ہے۔ (جاری ہے)

اسما صدیقہ