پاکستان کا نام اور دستور اس کے تشخص کی علامت اور عکاس ہے۔ اس کے باوجود ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کو تصور اور تشخص کے بحران سے دوچار کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس کے مجموعی مزاج اور سماجی اور سیاسی ثقافت کا لحاظ کیے بغیر پاکستان کو تنہا کر کے ایک مخصوص محدب عدسے سے دیکھا جارہا ہے۔ بھارت نے اپنا سفر سیکولرازم کے نعروں اور دعوؤں سے شروع کیا۔ دستور کی لکھی ہوئی کتاب کے برعکس بھارت نے ہر قدم سیکولرازم کے بجائے ہندوازم کی طرف بڑھایا اور اب یہ سفر حتمی منزل کے قریب ہے۔ بھارت میں ایک سخت گیر ہندو جماعت اپنی گرفت قائم کر چکی ہے اور سوسائٹی پر ہندو دھرم کو جبراً ٹھونسا جا رہا ہے۔ بھارت کے نئے نین نقش کچھ اس انداز سے تراشے اور اُبھارے جا رہے ہیں کہ اس کی ہندو ریاست کی شناخت کھل کر سامنے آئے۔
نریندر مودی نے اس سمت کے سفر میں جو کمی چھوڑی تھی وہ یوپی جیسی اہم ریاست میں یوگی ادتیا ناتھ جیسے سادھو حکمران پوری کر رہے ہیں۔ یوگی ادتیا ناتھ کی حکومت نے سیاحوں کی گائیڈ سے تاج محل جیسی خالص رومانوی اور سیاحتی عمارت کو خارج کر دیا۔ یہ تاریخی عمارت دنیا کا ساتوں عجوبہ ہے اور واقعتا زمین پر انسانی محنت اور ذہن کا ایک شاہکار ہے۔ مدتوں یہ بھارت کی پہچان رہا۔ اس عمارت سے کوئی مذہبی داستان اور رزمیہ کہانی وابستہ نہیں۔ اس میں داخل ہونے کے لیے کسی مذہب کی قید نہیں ہوتی مجھے اس تاریخی عمارت کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اس کے اندر گھومنے والوں میں مسلمانوں سے زیادہ ہندونمایاں ہوتے ہیں۔ اس عمارت کے کسی پہلو سے ہندو ددھرم کی توہین عیاں نہیں ہوتی۔ سوائے اس کے کہ عمارت پر قرآنی آیات اور یہ فارسی اشعار کندہ ہیں۔
برمزارِ ماغریباں نے چراغِ نے گلِ
نے پرِ پروانہ سوزد نے صدائے بلبلِ
یوں تاج محل خالص ایک رومانوی کہانی کا مرکز ہے۔ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے یہ بھارتی معیشت کو سہار دیتا ہے۔ انسان کے حسن تعمیر اور تدبیر کے اس شاہکار میں واحد خرابی صرف یہ ہے کہ اس کہانی کے کردار وں کے نام مسلمان ہیں۔ یہ بات اب نئے بھارت میں ریاستی طاقت کو ہضم نہیں ہو رہی۔
بھارت میں گائے جیسے جانور کو تقدس کا ایسا جامہ پہنایا گیا ہے کہ انسان بھی گائے کو حسرت اور یاس سے دیکھ رہے ہیں۔ یوں پنڈت نہرو کے بھارت پٹیل کے بھارت میں ڈھل رہا ہے اور ان دونوں سوچوں کا دھاگا امبیڈ کر کی صورت میں ٹوٹتا جا رہا ہے۔ ایک طرف بھارت کو چین کے مقابلے کے لیے عظیم اقتصادی اور فوجی طاقت بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت کے ایک ہندو ریاست میں ڈھلنے کو محض اس بنا پر برداشت کیا جا رہا ہے جدید دور میں بھارت ان کے نظریۂ ضرورت پر پورا اُترتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو آئینی شناخت سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس شناخت سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس سے پاکستان بھارت سے الگ اور مختلف دکھائی دیتا ہے۔ ہندو اکثریت سے الگ شناخت پر اصرار ہی پاکستان کے قیام کا جواز تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہی نکھرتی اور گہری ہوتی ہوئی شناخت اب بھی پاکستان کو بھارت میں تحلیل ہونے سے بچائے ہوئے ہے۔ پنڈت نہرو تو ساٹھ کے عشرے میں پاکستان کو کنفیڈریشن کا دانہ ڈال چکے ہیں۔ ایوب خان نے پنڈت نہرو کی اس پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔ پاکستان کی الگ شناخت کو ظاہر کرنے والا اس ملک کا دستوری نام ہے۔ ایک مرحلے پر اچھے بھلے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو امریکا کے پاکستانی سفارت خانے کے دعوت ناموں میں ’’ڈومین آف پاکستان‘‘ لکھا گیا تھا جب ملک کے اندر اس پر ہنگامہ کھڑا ہوا تو اسے املا کی غلطی کہہ کر جان چھڑائی گئی۔
اسی دور میں جب پاکستان کا تصور اور تشخص بیرونی دباؤ پر تبدیل کرنے کی چھوٹی چھوٹی اور منتشر مہمات جاری تھیں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ایک بیان سامنے آیا تھا کہ اسلام ہی پاکستان کی بنیاد ہے اور رہے گا۔ اس بیان کے بعد فوج نے اپنا وزن واضح طور پر ایک پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ موجودہ حکومت نے ختم نبوت کے حلف نامے سے چھیڑ چھاڑ کی تو ایک بار پھر ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور حکومت اس دباؤ کا سامنا نہ کر سکی اور اسپیکر سردار ایاز صادق نے اسے ڈومین آف پاکستان کی طرح ’’کلریکل مسٹیک‘‘ کہہ کر دامن چھڑا لیا اور یوں شق اصل شکل میں بحال ہو گئی۔ تاہم کور کمانڈرز کے اہم اور غیر معمولی اجلاس میں خاموشی کے بعد جب فوجی ترجمان بول پڑے تو اس گفتگو میں ایک جملہ معنی خیز تھا کہ فوج ناموسِ رسالت پر کوئی سمجھوتا نہیں کر ے گی۔ یہ محض ایک ترجمان کی بات نہیں تھی بلکہ ایک چھوٹے سے پراسرار سکوت اور توقف کے بعد اجلاس کی بریفنگ ہی تھی۔ حیرت ہے کہ ابھی تک این جی او مافیا نے یہ اعتراض نہیں اُٹھایا کہ فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے اس کا ناموسِ رسالت سے کیا تعلق؟ ہو نہ ہو ’’ڈومین آف پاکستان‘‘ کی طرح ختم نبوت کی شق میں ترمیم بھی پاکستان کے تصور اور تشخص پر ایک ڈرون حملہ ہی تھا جو ناکام ہوگیا ہے۔ ڈرون حملوں کے یہ سلسلے ختم نہ ہوئے تو مغربی بلاک کو خدا حافظ کہنے کے ساتھ ہی کہیں مغربی جمہوریت کا بستر بھی نہ گول ہوجائے۔