اسحق ڈار نے پرویز مشرف کے زمانے میں میاں نواز شریف کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو حلفیہ بیان دیا تھا، اگر عدالت اسے ہی تسلیم کر لیتی تو میاں صاحب کو رسوائی سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا لیکن عدالت نے تمام سنگین الزامات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نسبتاً ایک ہلکے الزام کو بنیاد بنا کر فیصلہ سنا دیا اب میاں صاحب اس فیصلے پر تلملا رہے ہیں وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ انہیں بہت غصہ ہے اگر وہ غصے کا اظہار نہیں کریں گے تو یہ منافقت ہو گی۔
حالاں کہ عدالت نے میاں صاحب کے ساتھ بہت رعایت کی ہے اور مسلسل رعایت کرتی چلی آرہی ہے ان کی تمام تر شرانگیز تقریروں کے باوجود انہیں توہین عدالت کے جرم میں نہیں پکڑا گیا۔ احتساب عدالت میں مطلوب ہونے کے باوجود ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہیں ڈالا گیا اور وہ آرام سے لندن چلے گئے ہیں وہ وزیراعظم نہ ہونے کے باوجود عملاً وزیراعظم بنے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی انہیں اپنا وزیراعظم تسلیم کرتے ہیں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق انہیں اپنا وزیراعظم قرار دیتے ہیں۔ موجودہ کابینہ کے تمام وزراء کو بھی میاں صاحب کو اپنا وزیراعظم ماننے میں کوئی عار نہیں ہے۔ وہ بے شک وزیراعظم ہاؤس میں نہیں ہیں لیکن وہاں ان ہی کا حکم چل رہا ہے، تقرریاں اور تبادلے ان کی مرضی سے ہو رہے ہیں۔
نیب کے چیئرمین چودھری قمر الزمان ریٹائر ہو گئے ہیں وہ بھی میاں صاحب کا انتخاب تھے اس کا صلہ انہوں نے یہ دیا کہ نیب میں شریف فیملی کے خلاف تمام مقدمات دبائے رکھے اور بعض کو کھڈے لائن لگا دیا۔ حدیبیہ پیپر ملز کیس ہمارے سامنے ہے۔ سنا ہے اب ’’دباؤ‘‘ کے سبب اس کیس کے کھاتے دوبارہ کھولے جارہے ہیں اور میاں نواز شریف کے خلاف برسوں پرانا پلاٹ کیس بھی کھول دیا گیا ہے۔ عمران خان نے اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں چیئرمین نیب کے تقرر کے معاملے میں حکومت اور اپوزیشن لیڈر میں ’’مک مکا‘‘ نہ ہو جائے، اپوزیشن لیڈر کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن میاں صاحب اور زرداری دونوں نے یہ کوشش ناکام بنا دیا۔ تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ چیئرمین نیب کے عہدے پر ایک نیک نام ریٹائرڈ جج کا تقرر عمل میں آگیا ہے۔
میاں نواز شریف ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان بھی کر رہے ہیں اور نکالے جانے کے باوجود سیاسی چالیں بھی غضب کی چل رہے ہیں وہ بیک وقت حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی۔ وہ ریاستی اداروں کو للکار رہے ہیں، عدلیہ اور اس کے فیصلوں کو مسترد کر رہے ہیں۔ فوج کو سقوط ڈھاکا کا حوالہ دے کر خبردار کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ساتھیوں کے ذریعے پارلیمنٹ کے اندر قانون سازی میں بھی مصروف ہیں یہ انتخابی بل اس کی واضح مثال ہے جس میں ایک نااہل شخص کو سیاسی پارٹی کا صدر بنانے کے علاوہ عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامے پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن بری طرح ناکام رہی اور ارکان پارلیمنٹ نے قوم کے پرجوش تعاون سے ناپاک سازش ناکام بنا دی۔
اب اس سازش کی خواہ کتنی ہی تاویلیں کی جائیں یہ حقیقت ہے کہ حلف نامے کی تبدیلی ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا اور میاں صاحب پچھلے دنوں احمدیوں یعنی قادیانیوں کو اپنے بھائی قرار دے چکے تھے ان کی یہ ویڈیو اب بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے اسی اخوتِ باہمی کو فروغ دینے کے لیے عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامے میں تحریف کی جسارت کی گئی تھی۔ میاں صاحب کے بھائی نے مطالبہ کیا کہ جس وزیرنے یہ حرکت کی ہے اسے کابینہ سے نکال دیا جائے لیکن یہ وزیر اب بھی کابینہ میں موجود ہے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی یہ ہمت نہیں کہ وہ اسے نکال دیں وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ میاں صاحب چہیتوں میں شامل ہے۔ میاں صاحب نے اپنے چہیتے وزیر کو بچانے اور معاملے کو دبانے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ جو ’’مٹی پاؤ‘‘ کے اصول پر معاملہ ختم کردے گی۔ یہ سیاسی چال نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ بات بھی اخبارات میں آچکی ہے کہ میاں صاحب نے عدالت سے نااہل ہونے کے بعد اپنی پہلی لندن یاترا میں بدنام بھارتی ایجنٹ اور پاکستانی فوج و عدلیہ کے دشمن الطاف حسین سے اپنے بیٹے کے گھر پر ملاقات کی تھی اس ملاقات کے بعد الطاف حسین نے ان کے حق میں بیان جاری کیا تھا۔
اگر یہ سب کچھ کرنے کے باوجود میاں نواز شریف پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا تو اس پر پوری قوم نے حیران ہونے کے اور کیا کر سکتی ہے!!!