فکر کے دریچے وا کرنے والا کالم نگار

333

عظیم سرور
لوگ کہتے ہیں اخبار کا لکھا ایک دن کی زندگی ہوتا ہے، اخبار صبح آیا، ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ نظریں اخبار کی سطروں پر، ذہن و دل پر اخبار چھاجاتا ہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد اسے تہ کرکے ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور پھر شام کو وہ ردی کے ڈھیر میں چلاجاتا ہے۔ اخبار کو انسان کی زندگی سے بھی ملایا جاتا ہے کہ انسان ایک دن کی زندگی پاتا ہے۔ صبح ہوتی ہے، دوپہر ہوتی ہے، سہ پہر ہوتی ہے اور پھر شام ہوجاتی ہے۔ صبح ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور پھر جب زندگی کی شام ہوجاتی ہے تو پھر ہاتھوں پر آجاتا ہے۔ یہ ایک دن کبھی سو سال، کبھی 80 سال کبھی 60،50 سال کہلاتا ہے اور جب بعد میں پوچھا جائے گا تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے تو وہ کہے گا شاید چند گھنٹے۔ لیکن کیا ایک دن کی زندگی کے بعد انسان ختم ہوجاتا ہے۔ کیا ایک دن کی زندگی کے بعد اخبار ختم ہوجاتا ہے؟۔
جی نہیں! انسان اس ایک دن کی زندگی میں ایسے ایسے کام کرجاتا ہے کہ جو کتابیں بن جاتی ہیں۔ ایسے ایسے چراغ جلاجاتا ہے کہ جو کئی راہیں روشن کردیتے ہیں۔ ایسے پھول کھلا جاتا ہے کہ جو رنگ اور خوشبوؤں کے نئے جہان بنادیتے ہیں۔ اور پھر اخباروں میں بھی ایسی ایسی چیزیں آجاتی ہیں جو بعد میں کتابوں میں سج کر آتی ہیں اور زندگی کو زندہ کرتی رہتی ہیں۔ آج کی اس تقریب کی تین جہتیں ہیں اخبار، مظفر اعجاز اور کتاب۔



مظفر اعجاز کے کالم روزنامہ جسارت میں چھپتے رہے، شاید ہم سب نے یہ کالم پڑھے ہوں گے۔ کبھی کبھی چند لمحوں کے لیے ان کالموں کے ساتھ خیالات کے چراغ روشن ہوئے، لیکن پھر رات گئی بات گئی والی کیفیت ہوگئی۔ مظفر اعجاز کے کالم بہت سے مسائل پر روشنی ڈال کر ان مسائل کو لوگوں کے سامنے بڑی مہارت اور حسن کے ساتھ لاتے ہیں۔ لیکن اخبار کی بات کبھی کبھی ہی آگے بڑھتی ہے بس ذرا سی روشنی کرکے غائب ہوجاتی ہے۔ پھر اخبار میں شائع ہونے والے ان کالموں کو نئی زندگی ملی اور یہ کتاب میں درج ہوگئے۔ اب کتاب ہاتھوں میں آئی تو یہ کالم زیادہ روشنی بکھیرنے لگے۔ جو کالم اخبار کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے تھے وہ اب کتاب کی پھول پھلیوں میں آگئے۔ (اطہر ہاشمی صاحب شاید پھول پھلیوں کی ترکیب کو نشانہ بنائیں گے) جسارت کے یہ کالم جو مختصر مختصر روپ میں آتے رہے کتاب کی صورت میں آکر بھاری بھرکم روپ اختیار کر گئے ایسا لگا کہ ان ننھے ننھے چراغوں کے وولٹیج میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پھولوں کی خوشبو بڑھ گئی ہے۔ مظفر اعجاز نے جسارت اخبار میں شائع ہونے والے اپنے کالموں میں سے 62 کا انتخاب کیا اور اسے کتاب کے رو پ میں پیش کردیا۔
میرے پاس یہ کتاب لے کر آئے تو یہ کتاب انہوں نے میرے دائیں ہاتھ میں دی۔ اللہ کرے ان کی زندگی کے سارے کالموں کی کتاب بھی ان کے دائیں ہاتھ میں تھمائی جائے۔ اس کتاب کے چھ باب ہیں۔ پہلا باب میڈیا کا ہے اس میں 12 کالم ہیں جو بارہ دری کا نقطہ پیش کرتے ہیں۔ ایک ایک کالم فکر کے دریچے کھولتا ہے۔ ایک ایک کالم کے چراغ نئے نئے راستوں کی نشان دہی کرتے ہیں اور بہت سے مسائل آپ کے سامنے لاکر رکھ دیتے ہیں۔ مختصر مختصر لفظوں میں طویل داستانیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک کالم بھارتی ثقافتی یلغار میں انہوں نے ٹیلی وژن میڈیا کے جلووں کی جھلک دکھائی ہے یہ کالم اخبار میں بھی پڑھا تھا۔



کتاب میں دو بار پڑھا، اس کالم کی روشنی میں پورا پاکستان گھوم گیا۔ ٹیلی وژن ہماری زندگی میں بھارتی ثقافتی زندگی کو پیش کرتا چلا جارہا ہے۔ ناچ جو بھارت میں عبادت کا درجہ رکھتا ہے، ہمارے ہاں فیشن کے نام پر گھروں، اسکولوں اور کالجوں میں آرہا ہے، جہیز بھی تو بھارتی ثقافت ہے ٹی وی کی تقریباً ساری اینکرز اور مہمان خواتین بغیر دوپٹے کے ہوتی ہیں کئی دفعہ مصرع ذہن میں آتا ہے دوپٹہ کہاں بھول آئیں اچھی اینکر یا اور جناب یہ آلتی پالتی مار کر بیٹھنا بھی تو بھارتی ثقافت ہے ہماری ثقافت نماز نے بتائی اور سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوئی ہے اس میں تو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر نہ کھڑا ہوا جاتا ہے نہ بیٹھا جاتا ہے اور مغل بادشاہوں بابر، اکبر اور جہانگیر کو مغل اعظم کے نام پربھارتی روپ دیا جاتا ہے۔ ان بادشاہوں کے گھر میں شراب اور مجرے ہوتے تھے۔
مظفر اعجاز اپنے کالموں میں خیالوں کو مہمیز دینے کا کام کرتے ہیں، امریکا، اسرائیل کے علاوہ مصر کے فوجی حکمرانوں کے کارناموں کو وہ جس طرح بیان کرتے ہیں اس سے ذہنوں اور دلوں کی ان تاریکیوں تک پہنچ ہوجاتی ہے جو ہمارے و طن پاکستان میں پھیلائی جارہی ہے اور پھیلائی گئی ہیں۔ مظفر اعجاز کس خوب صورتی سے کام کرتے ہیں۔ مظفر اعجاز کی اس کتاب قلمرو کا دوسرا باب بین الاقوامی مسائل کے نام سے ہے اس میں دس مضمون ہیں۔ اس طرح ہم اس باب کو دس نمبری بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں امریکا کی 100 ملکوں میں جنگ والا کالم۔ سوچ کی بہت سی راہیں کھولتا ہے۔ میں سوچتا ہوں امریکا اپنی اتنی بڑی فوج کو دنیا بھر میں اس لیے الجھائے ہوئے ہے وہ اپنی فوج کو دنیا بھر میں اس لیے بٹھائے ہوئے ہے، اکثر اتنی بڑی فوج امریکا میں رہے گی تو بیکار مباش کچھ کیا کر کے مصداق حکومت پر ہی قبضہ کرلے گی، امریکا میں مارشل لا لگا دے گی۔



مظفر اعجاز کے کالموں کی روشنی کہاں کہاں لے جاتی ہے۔ اس کتاب کا تیسرا باب شخصیات کے عنوان سے ہے۔ کیسے کیسے لوگ اس باب میں نظر آتے ہیں۔ شمیم صاحب والا مضمون بھی میں نے دو بار پڑھا ان کے ساتھ کام کیا ان کے ساتھ مل کر مولانا کی کتابیں ریکارڈ کیں اس دوران میں ان کے خلوص نے بہت متاثر کیا۔ محبت والے شخص تھے۔ جن کی زندگی کا مشن اسلام سے محبت تھا، جماعت اسلامی سے محبت تھا، سید مودودی سے محبت تھا۔ کہتے تھے تفہیم القرآن ریکارڈ کردیں۔ کئی بار بات ہوئی لیکن یہ کام پھر مسلم سجاد صاحب کے حصے میں آیا وہ میرے پاس آئے اور تفہیم کی ریکارڈنگ کا کام شروع ہوگیا۔ پونے دو سال لگے اور الحمدللہ پوری تفسیر ریکارڈ ہوگئی اس کا پودا شمیم صاحب ہی نے لگایا تھا۔ عافیہ صدیقی کی شخصیت پر دو مضمون ہیں۔ ان مضامین کو پڑھنے کے بعد بات ذہن میں آگے بڑھتی ہے اور ذہن میں کئی نام آجاتے ہیں، قوم کی غیرت بیچنے والے کئی جھوٹے وعدے کرنے والے ذہن میں آجاتے ہیں۔ مظفر اعجاز نے اپنی کتاب میں جو مضمون بڑی محنت سے منتخب کیے ہیں وہ ان کی مدیرانہ اور مدبرانہ صلاحیت کا پتا دیتے ہیں۔ پاکستان میں بے مقصد اور اندھی زندگی کو فروغ دینے کے لیے ایک لابی پوری طرح سے کام کررہی ہے جو میڈیا سے سیاست تک اس لابی کا میدان عمل ہے۔
مظفر اعجاز نے اپنے کالموں میں پاکستان کی سوچ کو بڑھانے کی جو کوششیں کی ہیں ان کو کتاب کا رو پ دے کر ان کوششوں کی قوت میں اضافہ کیا ہے۔
کالم کو انہوں نے کتاب کا روپ دے دیا کیوں کہ کتاب ہی وہ چیز ہے جو اس دنیا میں بھی ہے اور اگلی دنیا میں بھی ہوگی۔ دائیں میں ہوگی یا بائیں ہاتھ میں۔ (مظفر اعجاز کے کالموں کا مجموعہ قلم رو کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)