دو پالیسیوں کا ایک اور ثبوت

242

Edarti LOHابھی وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے دو پالیسیوں والے بیان کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی اور اس بیان کی بازگشت بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ وزیراعظم نے ایک ہی ملک میں دو پالیسیوں کا ایک اور ثبوت دے دیا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان کردیا ہے کہ ارکان اسمبلی اور وزرا کے کالعدم تنظیموں سے رابطوں کا خط جعلی تھا۔ لیجیے معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ وجہ کیا تھی، یہ ارکان اسمبلی کون ہیں، ان پر یہ الزام کس نے لگایا، سرکاری ویب سائٹ اور سرکاری خط کس نے جاری کیا اور یہ معاملہ ان ہی دنوں ہی کیوں اٹھایاگیا جب حکومت کو اسمبلی میں ووٹوں کی ضرورت تھی۔ ان ارکان نے کس کے کہنے پر واک آؤٹ کیا پھر پیر کو ان کی وزیراعظم سے کیا بات ہوئی اور پھر صرف وزیراعظم کا بیان ان ارکان اسمبلی کی صفائی اور بریت کے لیے کافی ہوگیا۔ یہ تو تھی ایک پالیسی اور دوسری پالیسی کو روزانہ سارا پاکستان دیکھ رہا ہے کہ جب چاہتے ہیں محض شبہے کی بنیاد پر کسی کو بھی اٹھاکر لے جاتے ہیں پھر کوئی کچھ نہیں بول سکتا پھر ان کا مقدر جیل، موت کی سزا یا جعلی مقابلہ ہی ہوتا ہے۔ ان کی طرف سے ان کے خاندان کا سربراہ لاکھ وضاحت کرتا رہے کہ ان کے بارے میں اطلاع جعلی ہے لیکن کوئی نہیں سنتا۔ جب کہ وزیراعظم اسمبلی کے سربراہ ہیں، منتخب ارکان کے خاندان کے سربراہ نے کہا اور کالعدم تنظیموں سے تعلق کا الزام غائب۔ اس بات کی تحقیقات تو ہونی چاہیے کہ ان ارکان اسمبلی کے خلاف یہ خط لکھنے کے مقاصد کیا تھے۔ کہیں اس خط کی تشہیر کے ذریعے ان سے کوئی کام لینا مقصود تو نہیں تھا۔ کیا غلط الزام پر سزائیں صرف عام شہریوں کا مقدر ہیں۔



دوسری طرف ایک اور خبر ہے کہ پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ سردار عزیر بلوچ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ قتل کرکے تیزاب سے لاشیں مسخ کردیتا تھا۔ اسے اس کام میں سیاسی حمایت حاصل تھی۔ اس نے اسلحہ خریدنے، پولیس تھانوں پر حملے اور تخریب کاریوں کا بھی اعتراف کیا ہے جب کہ ایران کو اہم معلومات منتقل کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے لیکن صاحب اب بھی حراست میں اور مزے میں ہے۔ اس کا اَتا پتا ہے، گھر والے اور اس کے چاہنے والے کسی پیشی پر اس سے مل بھی لیتے ہیں۔ جس قسم کے اعترافی بیانات عزیر بلوچ نے دیے ہیں ان کے بعد اس کی رہائی یا سزا سے بچ جانے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ پاکستانی نظام اور یہاں کی روایات کا حصہ ہے کہ بقول مریم نواز بھگوڑے آزاد اور عدالتوں میں پیش ہونے والے گرفتار ہورہے ہیں۔ یقیناًاس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن ہو تو یہی رہا ہے۔ ایک ملک میں یہ بھی دو پالیسیوں کا ایک اور ثبوت ہے۔یہاں جنرل پرویز مشرف تین مرتبہ آئین معطل کرچکے ، بحثیں جاری ہیں آئین کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے جیل جاتے ہیں اور جیل میں بیٹھ کر شہر بھر سے بھتا وصول کرنے والے عیش کرتے ہیں۔