دوسری طرف ایک اور خبر ہے کہ پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ سردار عزیر بلوچ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ قتل کرکے تیزاب سے لاشیں مسخ کردیتا تھا۔ اسے اس کام میں سیاسی حمایت حاصل تھی۔ اس نے اسلحہ خریدنے، پولیس تھانوں پر حملے اور تخریب کاریوں کا بھی اعتراف کیا ہے جب کہ ایران کو اہم معلومات منتقل کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے لیکن صاحب اب بھی حراست میں اور مزے میں ہے۔ اس کا اَتا پتا ہے، گھر والے اور اس کے چاہنے والے کسی پیشی پر اس سے مل بھی لیتے ہیں۔ جس قسم کے اعترافی بیانات عزیر بلوچ نے دیے ہیں ان کے بعد اس کی رہائی یا سزا سے بچ جانے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ پاکستانی نظام اور یہاں کی روایات کا حصہ ہے کہ بقول مریم نواز بھگوڑے آزاد اور عدالتوں میں پیش ہونے والے گرفتار ہورہے ہیں۔ یقیناًاس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن ہو تو یہی رہا ہے۔ ایک ملک میں یہ بھی دو پالیسیوں کا ایک اور ثبوت ہے۔یہاں جنرل پرویز مشرف تین مرتبہ آئین معطل کرچکے ، بحثیں جاری ہیں آئین کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے جیل جاتے ہیں اور جیل میں بیٹھ کر شہر بھر سے بھتا وصول کرنے والے عیش کرتے ہیں۔