کراچی (رپورٹ : محمد انور )اختیارات نہ ہونے کا رونا رونے والی بلدیہ عظمیٰ کراچی کی منتخب قیادت نے کے ایم سی کے امور چلانے کے لیے ’’ون ونڈوآپریشن ‘‘ کی طرز پر ایک افسر کو4 اہم عہدوں کی ذمے داریاں دے دیں، جبکہ دو معطل افسران کو تاحال غیر قانونی طور پر تمام امور کی ذمے داریاں تفویض کی ہوئی ہیں۔اس بات کا انکشاف بدھ کو سرکاری ذرائع نے کیا، حکومت سندھ نے ایک افسر کو4 عہدوں پر تعینات کیے جانے کی اطلاعات کا نوٹس لے کر میٹروپولیٹن کمشنر سے وضاحت طلب کرلی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بلدیہ کراچی میں ان دنوں سندھ یونیفائیڈ گریڈ (ایس یو جی) سروس کے گریڈ18کے ایم بی بی ایس ڈاکٹر اصغر عباس کو بیک وقت سینئر ڈائریکٹر فوڈ و کوالٹی کنٹرول، ڈائریکٹر میونسپل پبلک ہیلتھ ویکٹرکنٹرول ، فنانشل ایڈوائزر اور میٹروپولیٹن کمشنر کی اہم ترین اسامیوں کا چارج دیا ہوا ہے ۔جو نہ صرف سندھ سروسز رولز کی خلاف ورزی ہے بلکہعدالت عظمیٰ کی ہدایت کے بھی خلاف ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر چیف سیکرٹری سندھ نے متعلقہ حکام اور میٹروپولٹین کمشنر سے ایک ہی افسر کو4 اسامیوں کا چارج دینے پر جواب طلب کیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ میئر نے حاصل اختیارات کے تحت ایک ہی افسر کو چار اسامیوں پر تعینات کرکے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ بااختیار ہیں
لیکن وہ اکثر اختیارات نہ ہونے کی شکایات کرتے رہتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ یہ سمجھتی ہے کہ میئر وسیم اختر بلدیاتی قوانین کے مطابق تمام اختیارات نہ صرف رکھتے ہیں بلکہ اپنی صوابدید کے مطابق استعمال بھی کررہے ہیں۔میئر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے محکمہ انجینئرنگ کے سپرنٹنڈنگ انجینئر ایس ایم طٰہٰ کو سینئر ڈائریکٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی ، چیف انجینئر ٹی اینڈ سی ، چیف انجینئر یونین کونسل پروگرامز، اور ڈائریکٹر ڈیزائننگ و پلاننگ کا بھی چارج دیا ہوا ہے۔مذکورہ دو افسران پر نوازشوں کی بارش سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ میئر ہر افسر سے مختلف امور پر بات کرنے کے بجائے صرف دو یا ایک ہی افسر سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس عمل سے متعلقہ محکموں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔چند روز قبل مشیر مالیات کے عہدے پر اضافی خدمات انجام دینے والے افسر کی نااہلی کی وجہ سے صوبائی حکومت 83کروڑ روپے کی گرانٹ واپس لے چکی ہے ۔کیونکہ یہ رقم مقررہ وقت تک استعمال نہیں کی گئی تھی۔ا
یک اعلیٰ سرکاری اور ذمے دار افسر کا کہنا ہے کہ کسی ایک افسر کو
ضرورت کے تحت کسی اور عہدے کا ایک چارج میئر کراچی اپنے اختیارات کے تحت دے سکتے ہیں لیکن ایک افسر کو ایک سے زائد عہدوں کا چارج دینا درست نہیں ہے ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ2 افسران کو8 عہدوں کی ذمے داری سے یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ کے ایم سی میں افسران کا بحران ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک درجن سے زائد اہل اور اچھی شہرت کے افسران گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے بغیر پوسٹنگ کے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔اسی طرح سابق و معطل سینئر ڈائریکٹر ڈائریکٹر میونسپل سروسز اور ڈائریکٹر جنرل باغات معطل ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پر متعلقہ امور انجام دے رہے ہیں۔یادرہے کہ کے ایم سی کے فنانشل ایڈوائزر اور میٹروپولیٹن کمشنر کے عہدوں پر تعیناتی کااختیار حکومت سندھ کے پاس ہے لیکن حکومت بھی بلدیہ کے حوالے سے اپنے اختیارات استعمال کرنے سے گریز کرتی ہے ۔