رحمن ملک کا کہنا ہے کہ ہمارے آرمی چیف قابل فخر ہیں یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں مگر اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تمام حکمران قابل مذمت ہیں۔ موصوف نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ان کی جماعت کے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار ایک تقریب میں ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور حکمرانی میں عدالتوں کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔ وزراء بھی پیشی پر حاضر ہو جاتے تھے ملک صاحب چودھری افتخار بار بار نوٹس جاری کرتے رہے مگر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ان کے ہر نوٹس کو ہوا میں اڑاتے رہے۔
پیپلزپارٹی کے دور حکمرانی میں عوام اور ملک کی جو تذلیل ہوتی رہی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھارت کی فوج نے پاکستان کا طیارہ مار گرایا تھا مگر حکومت نے اس معاملے کو دبا دیا تھا اور عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ طیارہ کسی حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔
زرداری صاحب کی حکومت بھارتی حکومت کی فرمائش پر آئی ایس آئی کے چیف کو بھارت کے حوالے کرنے پر آمادہ ہوگئی تھی۔ ایبٹ آباد کا واقعہ بھی پیپلزپارٹی کی حکومت کا کارنامہ ہے۔ لوڈ شیڈنگ نے عوام کی جو درگت بنائی تھی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے‘ چار چار گھنٹے لائٹ نہیں آتی تھی۔ پٹرول لائن میں لگ کر لینا پڑتا تھا۔ آج پٹرول بآسانی مل رہا ہے اور قیمت بھی لگ بھگ پچاس روپے کم ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں جنریٹر کا کاروبار کرنے والے دولت سے کھیل رہے تھے۔ آج وہ دکانوں پر بیٹھے مکھیاں ما رہے ہیں۔
ایک نجی ٹی وی بڑی ہتک آمیز انداز میں کہتا ہے کہ نااہل وزیر اعظم نواز شریف کی پیشی ہے۔ پیشی پر ’’نواز شریف حاضر ہو‘‘ کی آواز پڑے گی۔ وہ بھاگے بھاگے کمرۂ عدالت کی جانب جائیں تو یہ منظر قابل دید ہوگا۔ خدا جانے یہ اینکر کس دنیا میں بستے ہیں۔ ہم انگریز کی غلامی سے آزاد ہو چکے ہیں اب ایسا توہین آمیز انداز اختیار نہیں کیا جاتا۔ مدعی یا مدعا علیہ کا نام لے کر بلایا جاتا ہے ’’فلاں حاضر ہو‘‘ والا زمانہ گزر چکا ہے مگر یہ اینکر پرسن ابھی تک دورِ غلامی میں سانس لے رہے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ سمندر میں گندگی بڑھ گئی ہے‘ ہم گوادر کو صاف شفاف پانی فراہم کریں گے کوئی ان سے پوچھے کہ وہ اہل کراچی کو یہ سہولت کیوں نہیں دیتے وہاں تو ان کی اپنی حکومت ہے اور انہیں اس بات کا بخوبی احساس ہے۔ فرماتے ہیں کراچی میں جو شخص بھی نئی عمارت بنائے گا وہ بجلی‘ پانی اور صفائی کا خود ذمے دار ہوگا۔ ہم ایسی سہولت مہیا نہیں کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر حکومت ٹیکس کس مد میں لیتی ہے حکومت کسی کی بھی ہو اگر وہ عوام کو سہولتیں فراہم نہیں کرتی تو ٹیکس بھتے کی مکروہ اور بدترین صورت ہی کہلائے گی۔