ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہونے کے علاوہ پاکستان چوں کہ ایک خالص نظریاتی اسلامی مملکت ہے اور اس کے قیام کا جواز اور بنیاد چوں کہ اسلام کا آفاقی نظریہ حیات ہے اس لیے پاکستان کے تینوں آئینوں میں نہ صرف بالاتفاق پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست تسلیم کیا گیا ہے بلکہ پاکستان کا پورا آئین اور اس کی روشنی میں بننے والے قوانین کو اگر ایک طرف اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے تو دوسری جانب 1973کے متفقہ آئین میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکے گا۔ اسی طرح1973 کے آئین میں چوں کہ واضح طور پر پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری مملکت قرار دیا گیا ہے اور قرآن وسنت کو ملک کے اعلیٰ ترین قانون کی حیثیت دی گئی ہے اور اس آئین سے وفاداری کے حلف میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا ذکرچوں کہ واضح طور پر موجود ہے اس لیے کوئی بھی مسلمان نہ تو اس حلف کے مندرجات میں کسی قسم کی ترمیم کو برداشت کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کے حذف کیے جانے پر خاموش رہ سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے میں اس خبر کا منظر عام پر آنا کہ انتخابات میں امیدواران کے نامزدگی فارم میں ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کو خذف کر دیا گیا ہے تو دین و ایمان سے وابستہ اس اہم ایشو پر پارلیمان سمیت عوامی سطح پر ایک بڑے ردعمل کا سامنے آنا ایک فطری عمل تھا ویسے بھی پاکستا ن جیسی نظریاتی مملکت جس کی بنیاد ہی نظریہ اسلام اور عقیدہ ختم نبوت پر رکھی گئی ہے کے آئین میں درج مسلمان کی تعریف کو مد نظر رکھتے ہو ئے ارکان پارلیمنٹ کے کاغذات نامزدگی فارم کے عقیدہ ختم نبوت کے الفاظ میں ترمیم یا اس کا حلف نامے سے حذف کیا جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ اس ایشو کی حساسیت اور نزاکت ہی ہے کہ جب یہ بات سامنے آئی کہ قومی اسمبلی نے پارٹی صدارت کے لیے نا اہلی کی شرط کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کاغذات نامزدگی کے فارم میں عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامے کی شرط بھی ختم کر دی ہے تو اس پر اپوزیشن نیز سیکولر اور دینی جماعتوں نے بلا تفریق جو زبردست احتجاج کیا اور اس ضمن میں حکومت اور متعلقہ وزرات کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا گیا کہ حکومت نہ صرف بلا توقف اپنی غلطی تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گئی بلکہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اس نے قومی اسمبلی سے نیا ترمیمی بل بھی فی الفور منظور کروا کر ایک جانب اگر اپنی غلطی پر شرمندگی کا اظہار کیا ہے تو دوسری جانب اس فوری ایکشن کے ذریعے اس نے اپوزیشن اور پوری قوم کو بھی یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس نے جس تیزی سے مجوزہ ترمیم اسمبلی سے منظور کرائی ہے اس کے پیچھے اپوزیشن بالخصوص مذہبی جماعتوں کا دباؤ کار فرما تھا یا پھر حکومت کی متذکرہ غلطی چوں کہ واقعی کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھی اس لیے اسے احساس ہوتے ہی اس نے نہ صرف فوراً اپنی غلطی تسلیم کر لی بلکہ اس کی تصحیح کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی جو بظاہر ایک قابل ستائش امر ہے لیکن حیرت اس بات پرہے کہ جب حکومت میاں نوازشریف کی نا اہلی کے بعد شدید دباؤ میں ہے ایسے میں اسے مذہبی جذبات اور ایمان وعقیدے سے تعلق رکھنے والے ایک حساس معاملے کو چھیڑنے کی ضرورت آخر کیوں کر درپیش ہوئی اس حوالے سے بعض حلقے جہاں نواز شریف کی نا اہلی سے متعلق ترمیم کو عجلت میں پیش کرنے کو بطور ایک اہم عامل پیش کر رہے ہیں وہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے یہ سب کچھ میاں نواز شریف کی نا اہلی کے باوجود ان کی پارٹی صدارت کی راہ ہموار کرنے کے لیے کی جانے والی ترمیم پر عوامی ردعمل کا رخ دوسری جانب موڑنے کے لیے ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت کیا ہے ان دونوں آراء میں کون سی بات صحیح ہے اس کے متعلق چوں کہ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا اس لیے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار ہی ایک مناسب آپشن ہوگا۔