معمولات میں توازن نہ ہو تو زندگی بے معنی ہے‘ ڈاکٹر سید اجمل کاظمی

745

ملک میں نفسیاتی مریض بہت زیادہ ہیں،مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے‘ ماہر ذہنی امراض کی جسارت سے بات چیت

ڈاکٹر اجمل کاظمی ملک کے مشہور معالج اور تحریک آزادی کے معروف دانش ور رہنما پروفیسر حسنین کاظمی کے بھانجے ہیں۔ آپ ملک اور بیرون ملک سے علم نفسیات اور رویہ جات پر میڈیکل سائنس کی ڈگریوں کے حامل ہیں۔ کئی عشروں سے ذہنی امراض میں مبتلا لاکھوں مریضوں کا علاج کرنے کے ساتھ ذہنی صحت کے کئی فلاحی اداروں کی سرپرستی بھی کررہے ہیں۔ عالمی یوم دماغی صحت کے موقع پر ڈاکٹر اجمل کاظمی سے کی گئی خصوصی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔

انٹرویو: جہانگیر سید

سوال: رواں برس ذہنی صحت کے عالمی دن کا پر ’کام کی جگہوں پر ذہنی صحت‘ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس تناظر میں آپ کے ہاں ایک فارمولا ’ایس ایچ او (سوسائٹی، ہوم اینڈ آکیوپیشن) ہے، جس کے تحت معاشرے، گھر اور کام کی جگہوں پر ذہنی صحت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ ہمارے معاشرے میں کام کرنے کی جگہوں پر بہتر کارکردگی کے لیے کیسا ماحول ضروری ہے؟
جواب: انسانی زندگی کے بنیادی طور پر تین حصے ہیں، ایک اس کا گھر، دوسرا اس کے کام کی جگہ اور تیسرا تفریح کے مواقع۔ ان تینوں چیزوں کے ساتھ انسان توازن برتے تو زندگی کو مطمئن انداز سے گزارا جا سکتا ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کا توازن بھی بگڑ جائے تو یہ تینوں حصے متاثر ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میاں بیوی ہر وقت جھگڑتے ہی رہتے ہوں تو اس سے ان کے معمولات شدید متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسان نہ صرف معمول کی زندگی ٹھیک طرح سے نہیں گزارتا پاتا بلکہ اس کی تفریح بھی متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ہر وقت تفریح ہی کرتا رہے اور دوسری اہم چیزوں کو نظر انداز کرنا شروع کردے تو اس سے اس کا کام یقینی متاثر ہو سکتا ہے، پھر اسی طرح اگر کوئی شخص ہر وقت اپنے کام، روزگار یا نوکری میں ہی مصروف رہے تو اس سے نہ صرف اس کا گھر بلکہ اس کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ ہمارے ہاں کے سیاستدانوں ہی کی مثال لے لیجیے، یہ اتنی زیادہ سیاست کرتے ہیں کہ دن رات اسی میں گزارتے ہیں، اسی وجہ سے درست فیصلے نہیں کر پاتے اور اس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔کوئی شخص جب تک خود کو تینوں ضروری حصوں میں توازن کے ساتھ تقسیم نہیں کرے گا اس صورت میں معمولات کے بہتر نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مطمئن زندگی گزارنے کے لیے ہر معاملے میں توازن اور ماحول کا اچھا ہونا ضروری ہے۔

سوال: کام کی جگہ کا معیاری ماحول کیسا ہونا چاہیے؟
جواب: پیشہ ورانہ زندگی میں آٹھ گھنٹے کام کے لیے مختص سمجھے جاتے ہیں، اس تناسب سے ایک ہفتے میں تقریباً 48 گھنٹے کام کرنا چاہیے جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ 48 کے بجائے ایک ہفتے میں 40 گھنٹے کام کیا جائے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ 24 گھنٹوں میں تین تین کام کرتے ہیں، ان کی کارکردگی نہایت خراب ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں معاشرے میں ایک گھر چلانے کے لیے متوسط طبقے کے ہر شخص کو مستقل کے ساتھ ایک جز وقتی نوکری بھی کرنا پڑ جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ کام زیادہ ہونے کے ساتھ ذہنی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔یہ مسائل تقریباً تمام ترقی پذیر ممالک کے ہیں، یہاں تک کہ امریکا بھی ان ہی مسائل کا شکار ہے، وہاں لوگ سوتے کم اور کام زیادہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایشیائی لوگ مغربی ممالک میں جا کر تین تین جگہوں پر نوکری کرتے ہیں، اس سے نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور بالآخر وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔
سوال: شور و غل سے پیدا ہونے والی آلودگی کام کی جگہوں کو کس حد تک متاثر کرتی ہے؟
جواب: شور و غل سے پیدا ہونے والی آلودگی کے علاوہ دھول، مٹی گندگی اور ایسی تمام چیزیں آپ کی صحت کو خراب کرتی ہیں۔ ایک زمانے میں، میں نے اپنے ایک مضمون میں اس موضوع پر لکھا تھا۔ جس میں فضا میں پائی جانے والی لیڈ کی شرح میں بے انتہا اضافے کا حوالہ دیا گیا تھا، جس میں شہر میں لیڈ کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس کے باعث بچوں کی نشوونما کس قدر متاثر ہوتی ہے۔ ایسے بچوں میں اشتعال اور احتجاج بہت زیادہ پایا جاتا ہے جس سے ان کی ذہنی صحت کا توازن قدرے بگڑا ہوتا ہے۔
سوال: ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی مہذب اور بہترین دانش کے مالک افراد اخلاقی طور پر غیر متوازن ثابت ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں بات کرنے کی تمیز بھی نہیں ہوتی، ایسے لوگوں کی ذہنی صحت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

جواب: درحقیقت میرے جیسا آدمی جب ملک سے باہر چلا جاتا ہے، تو وہ باہر جا کر بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے۔ جس طرح کہ آپ نے گزشتہ دنوں ٹی وی پر دیکھا ہوگا کہ ہمارے وزیر اعظم کی بیٹی مریم بی بی لندن کی سڑکوں پر بغیر کسی سیکورٹی اور پروٹوکول کے آزادی کے ساتھ گھوم پھر رہی تھی۔ ان کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا، لیکن ملک میں واپس آتے ہی ان کا کر و فر قابل دید ہوتا ہے۔ اور حیرت ہوتی ہے ایسے لوگوں کی دوغلی زندگی بتاتی ہے کہ ان کی شخصیت اندر سے غیر متوازن اور کھوکھلی ہے۔
سوال: آپ سیاست کو بھی سمجھتے ہیں، اس کے اتار چڑھاؤ سے بھی اچھی طرح واقف ہیں، آپ فعال سیاسی کارکن کے طور پر خدمات بھی انجام دیتے رہے ہیں، آپ کی زندگی کا ایک نظریہ بھی ہوگا۔ آپ کی نظر میں ہماری سیاسی جماعتوں میں آپ کسے قوم کے لیے نجات دہندہ سمجھتے ہیں؟
جواب: میں عمران خان سے بھی ملا ہوں، جماعت اسلامی میں بھی میرے کئی قریبی رفیق ہیں اور میں خود جمعیت میں بھی بہت فعال رہا ہوں۔ میں نے ڈاؤ میڈیکل کالج میں کئی الیکشن بھی لڑے اور جیتے ہیں۔ ڈاکٹر بننے کے بعد سول اسپتال کی ڈاکٹرز یونین کا الیکشن بھی لڑا جس کے باعث میڈیکل برادری سے میرے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ جمعیت سے وابستگی کے دور میں جو بہت مشہور رہنما میرے رفیق کار تھے، ان کے نام تو میں نہیں لوں گا، لیکن اب وہ نظر نہیں آتے۔ ہمارے کالج کے زمانے میں اسلامی جمعیت سے وابستہ طالب علموں میں بڑا جذبہ اور دیانت داری پائی جاتی تھی، لیکن اب سیاست میں اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی کے باعث نیا خون نہیں آ رہاجس سے ہماری سیاسی فعالیت متاثر ہوئی ہے۔ میں سیاسی جماعتوں میں موازنہ کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ ہر ایک کی اپنی اپنی کارکردگی ہوتی ہے۔میں آپ کو بتاؤں کہ پاسبان کے جو صدر ہیں، یہ لوگ ایسے ہیں جو اپنی جگہ قائم رہے، اپنا وہی سلسلہ جاری رکھا، اور کام کرتے رہے۔ الطاف شکور میرے بہت اچھے دوست ہیں۔ وہ اپنے موقف کی سچائی پر شروع سے آج تک قائم دائم نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں الیکشن کا سسٹم اتنا خراب ہے کہ کبھی بھی کوئی صحیح فرد کامیاب نہیں ہو سکتا اس کے لیے ہمیں اپنے سسٹم پر بہ حیثیت قوم نظر ثانی کرنا ہوگی۔

سوال: بہ حیثیت معالج نفسیاتی امراض، غریب مریضوں کے لیے مفت خدمات بھی انجام دے رہے ہیں، کچھ اس بارے میں بھی بتایئے؟
جواب: ہمارا سماجی ادارہ کاروانِ حیات مریضوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ جن مریضوں کی فیملی کو کوئی سپورٹ نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے طبی مسائل پر دھیان دیا جاتا ہے۔ اگر ان کے پاس پیسے نہ ہوں تو علاج کے لیے ان کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ ایسے غریب اور بے سہارا مریضوں اور ان کے متاثرہ خاندانوں کے لیے میں نے ایک چھوٹا سا ’’اجمل کاظمی ٹرسٹ‘‘ بنایا ہے جو اندرون اور بیرون ملک اپنے مخیر دوستوں کے عطیات سے چلایا جا رہا ہے۔ میرے معاون و مددگار امریکا سے بھی مجھے مریضوں کی فلاح و بہبود کے لیے اتنے پیسے بھیجتے ہیں کہ میں رمضان کے مہینے میں تقریباً 4 سو افراد کو مفت راشن فراہم کرتا ہوں۔میں چونکہ کاروان حیات سے بہت عرصے سے منسلک ہوں، اس لیے مجھے پوری طرح علم ہے کہ کس مریض اور اس سے منسلک خاندان کی کیا کیا مالی ضروریات ہیں، جسے ہم زکوٰۃ اور عطیات سے پورا کر لیتے ہیں۔

سوال: پاکستان میں اس وقت کون کون سے نفسیاتی امراض ہمارے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں؟
جواب: سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں نفسیاتی بیماروں کے حوالے سے مناسب تعداد میں ڈاکٹرز ہی موجود نہیں ہیں۔ مریضوں کی تعداد کے مقابلے میں نفسیاتی ڈاکٹر برائے نام ہیں۔ ہمیں اس پر سنگین مسئلے پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا پورا کراچی شہر اس وقت نشے کے عادی مریضوں سے بھرا نظر آتا ہے لیکن اس مسئلے کو قابو کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا اور نہ کچھ کیا جا رہا ہے۔ نشہ کرنے والے افراد کا علاج اس لیے بھی انتہائی ضروری ہے کہ نشے میں مبتلا افراد غیر سماجی سرگرمیوں میں گرفتار ہو کر معاشرے کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔ ایسا فرد کوئی بھی جرم یا کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ہمیں اس شعبے میں کام کرنے کی عسکری بنیادوں پر ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں مریضوں کے لیے نفسیاتی اسپتال ہیں نہ ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ انہیں ملک بھر میں مفت علاج کی سہولتیں دستیاب ہونی چاہییں۔ اگر لوگ اس ضمن میں عطیات دینا چاہیں تو ہم فری اسپتال قائم کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔