قانون نافذ کرنے والوں کا اعتراف

438

Edarti LOHپاکستان میں عوام کو لاپتا کردینے کا معاملہ برسوں سے عمومی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں اس پر کسی حد تک کارروائی بھی کی گئی ہے اور عدالتی دباؤ پڑنے پر کچھ لوگ بازیاب بھی ہوئے ہیں۔ برسوں پہلے ایک ایسے شخص کو عدالت میں پیش کیا گیا جو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے قبضے میں رہ کر ہڈیوں کا ڈھانچا بن چکا تھا۔ یوں بھی ہوا کہ بہت شور مچنے پر ایسے کسی شخص کو سڑک کنارے پھینک دیا گیا ۔جو اپنے گھروں کو آگئے انہیں اتنا خوف زدہ کردیاگیا کہ ان کے لب سلے رہے۔ایجنسیاں صرف اتنا کہتی ہیں کہ خیال رہے شہر میں ٹریفک حادثات ہوتے رہتے ہیں، کراچی پر قابض ایک تنظیم بھی جن لوگوں سے کچھ رعایت کرتی تھی انہیں محض دھمکیاں دینے پر اکتفا کرتی تھی ورنہ کہیں نہ کہیں لاشیں مل جایا کرتی تھیں۔ لیکن وہ تو ایک قاتل مافیا تھی۔ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے ورنہ اتنی مہربانی تو کی جائے کہ لواحقین کو ان کا پتا، نشان دے دیا جائے ورنہ وہ در بدر بھٹکتے رہتے ہیں اور پھر اچانک کسی سڑک سے لاش مل جاتی ہے۔ جب کبھی عدالتوں نے لاپتا افراد کے بارے میں ایجنسیوں سے دریافت کیا تو ہر ایک نے یہی کہاکہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ تاہم اب لاپتا افراد کے بارے میں بنائے گئے کمیشن کے اجلاس میں پولیس، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندوں نے اعتراف کیا ہے کہ ملک بھر سے سادہ لباس اہلکاروں کے ہاتھوں لاپتا ہونے والوں میں سے متعدد افراد ان کی تحویل میں ہیں۔ کمیشن کی دستاویزات کے مطابق گزشتہ 4 برس کے دوران میں لاپتا ہونے والے افراد میں سے کچھ کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔



لیکن لاپتا کیے جانے کا سلسلہ تو 4 برس سے کہیں زیادہ پرانا ہے۔ چنانچہ 2009ء میں سوات سے لاپتا جہانزیب کے بارے میں آئی بی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ کوہاٹ کے ایک سینٹر میں موجود ہے۔ 2009ء ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان سے لاپتا نور محمد لکی مروت میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک سینٹر میں موجود ہے۔ ایسے مراکز سیف ہاؤس کہلاتے ہیں اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ عموماً سادہ لباس والے اہلکار لوگوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں اور لواحقین چیختے ہی رہ جاتے ہیں۔ پولیس رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیتی ہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ پولیس ان لوگوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کردیتی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ایس ایس پی راؤ انوار نے ایسے لوگوں کو مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جو مہینوں سے پولیس کی تحویل میں تھے۔ گزشتہ 3 ماہ میں کراچی کے کئی لاپتا افراد پر اسرار طور پر اپنے گھروں کو پہنچے مگر وہ خوف کے مارے کچھ بتانے پر تیار نہیں کہ ان پر کیا بیتی اور وہ کس کی قید میں تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لاپتا افراد کمیشن کو کچھ لوگوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ یہ بھی ان کی بڑی مہربانی ہے ورنہ کوئی کیا کرلیتا، عدالتیں تک تو بے بس ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی سے 6 ہزار افراد لاپتا ہیں۔ یہ صورتحال کسی مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے خود قانون شکنی پر کمر بستہ ہوں۔ اس سے عوام میں اپنے محافظوں کے بارے میں بد گمانیاں جنم لیتی ہیں اور وہ تعاون کرنے سے کتراتے ہیں۔