لیکن لاپتا کیے جانے کا سلسلہ تو 4 برس سے کہیں زیادہ پرانا ہے۔ چنانچہ 2009ء میں سوات سے لاپتا جہانزیب کے بارے میں آئی بی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ کوہاٹ کے ایک سینٹر میں موجود ہے۔ 2009ء ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان سے لاپتا نور محمد لکی مروت میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک سینٹر میں موجود ہے۔ ایسے مراکز سیف ہاؤس کہلاتے ہیں اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ عموماً سادہ لباس والے اہلکار لوگوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں اور لواحقین چیختے ہی رہ جاتے ہیں۔ پولیس رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیتی ہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ پولیس ان لوگوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کردیتی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ایس ایس پی راؤ انوار نے ایسے لوگوں کو مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جو مہینوں سے پولیس کی تحویل میں تھے۔ گزشتہ 3 ماہ میں کراچی کے کئی لاپتا افراد پر اسرار طور پر اپنے گھروں کو پہنچے مگر وہ خوف کے مارے کچھ بتانے پر تیار نہیں کہ ان پر کیا بیتی اور وہ کس کی قید میں تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لاپتا افراد کمیشن کو کچھ لوگوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ یہ بھی ان کی بڑی مہربانی ہے ورنہ کوئی کیا کرلیتا، عدالتیں تک تو بے بس ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی سے 6 ہزار افراد لاپتا ہیں۔ یہ صورتحال کسی مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے خود قانون شکنی پر کمر بستہ ہوں۔ اس سے عوام میں اپنے محافظوں کے بارے میں بد گمانیاں جنم لیتی ہیں اور وہ تعاون کرنے سے کتراتے ہیں۔