شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ

1197

نایاب حسن
ہندوستانی علما ومفکرین میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703۔1763) کو تنِ تنہا یہ امتیازحاصل ہے کہ آج برصغیر کے تقریباً تمام ہی اسلامی مکاتبِ فکر کے متبعین اپنے آپ کو اْن کے فکری اسکول سے نہ صرف منسوب کرتے ہیں، بلکہ شاہ ولی اللہ کے افکار، تصورات اورعلمی متروکات ہی میں وہ اپنے اپنے مسلک کے لیے تائیدی دلیلیں بھی تلاش کرتے ہیں۔ یقیناً ایسی خصوصیت صرف شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کو حاصل ہے اور اس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ نے ایسے وقت میں امت میں اتفاق و توافق کی بنیادیں تلاش کیں اور ان کی عملی تطبیق کی کوششیں کیں، جب بطورِ خاص ہندوستان کے مسلمان ایک جانب عملی کوتاہیوں اور سیہ کاریوں کا شکار تھے، ان کے معاشرے میں ہندوانہ رسوم ورواج اور بدعتوں کا دور دورہ تھا اور ان کے طرزِ زندگی میں اسلامی تعلیمات و افکار کا پرتو دِکھنے کے بجائے ہندوستان کے برہمنوں، راجپوتوں اور برادرانِ وطن کی دیگر برادریوں میں پائی جانے والی وبائیں عام تھیں۔ دوسری جانب اہلِ علم وفقہ کے طبقے اپنے اپنے خول سے باہر آنے کو تیار نہ تھے، ان میں ایک طبقہ ہمیشہ دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے درپے رہتا اور افسوس کی بات یہ تھی کہ وہ سب کے سب اس مہم میں کامرانی کے لیے شرعی دلائل کا سہارا لیتے تھے، وہ بیشتر فقہی مسائل اور فروعی نزاعات میں اْلجھے رہتے، پھر اس اْلجھاوے کا اثرصرف اْن علما تک ہی محدود نہ تھا؛ بلکہ تمام مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں تھے اور ان کی اصل اجتماعی وملی حیثیت مخفی و مشتبہ ہوکر رہ گئی تھی۔ سیاسی ومعاشرتی سطح پر بھی اس قسم کے اختلافات کے اندوہناک نتائج سامنے آرہے تھے۔ اہلِ علم وفکر کا ہر طبقہ وفرقہ اپنے اپنے مزعومات کی تصحیح میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف تھا اور اس بے جا مسابقت ومنافست کے ماحول میں اصل علمی وفکری سوتے خشک ہوتے جارہے تھے۔
یہ ہندوستانی مسلمانوں کا بہت بڑا المیہ تھا کہ اْن تک اسلام توصدیوں پہلے پہنچ چکا تھا، مگر وہ سترہویں صدی عیسوی تک بھی اسلامی علوم و فنون کے اصل منابع (قرآن وحدیث) سے اعراض کرکے منطقی موشگافیوں، کلامی جھگڑوں اور فقہی تنازعات کو علمی اْکھاڑ پچھاڑ کی آماجگاہ بنائے ہوئے تھے اور اسی کو علمی وفکری رسائیوں کی معراج سمجھتے تھے۔
شاہ صاحب نے علما وعوام کی قرآنِ کریم سے دوری کو دیکھتے ہوئے اولاً باقاعدہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور پھر ان میں قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنے اوراْنھیں کلامِ الٰہی میں تدبر و تذکر کی دعوت دینے کے لیے ’’فتح الرحمن‘‘ کے نام سے فارسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا۔ یہ کسی بھی ہندوستانی زبان میں قرآن کریم کا پہلا ترجمہ تھا، حیرت کی بات ہے کہ بجائے اس کے کہ شاہ صاحب کے اِس عظیم الشان کارنامے پر ان کے معاصر علما اْن کی حوصلہ افزائی کرتے اور احسان شناسی کا ثبوت دیتے، اْن کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے، حتی کہ بہت سے علماء سو نے یہ پروپیگنڈہ بھی کیا کہ یہ شخص قرآنِ کریم کا ترجمہ کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا اور بدعت ایجاد کرنا چاہتا ہے، بہت سے بدطینت تو ایسے بھی تھے، جو ان کی جان کے درپے ہوگئے، مگر چونکہ شاہ صاحب کا یہ واقعتاً اپنی نوعیت کا ایک انتہائی منفردکام تھا اورتفہیمِ کلامِ الٰہی کی سمت میں ایک مضبوط ترین کوشش تھی؛ اس لیے دوچار دس ’’حرم فروش فقیہوں‘‘ کے شور وغوغا سے آپ کی اس منفرد پیشکش کو مزید شہرت ملی اور بہت جلد سارا ہندوستان اس اولین فارسی ترجمے کی افادیت کا قائل اور قدر شناس ہوگیا۔
اسی طرح شاہ صاحب سے پہلے حدیث جیسے بابرکت علم کے تئیں بھی عجیب وغریب؛ بلکہ افسوسناک بے اعتنائی کا ماحول پایا جاتا تھا، پورے تدریسی نصاب میں حدیث کے نام پرصرف ’’مشارق الانوار‘‘ پڑھائی جاتی تھی، جبکہ دوسری جانب منطق وفلسفہ اور علمِ کلام کی بیسیوں کتابیں نصابِ درس میں شامل تھیں، شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ہندوستان میں علمِ حدیث کو رواج دینے کی بڑی جدوجہد کی، مگر وہ رائج نصاب میں خطیب تبریزی کی’’مشکوۃ المصابیح‘‘ کے علاوہ اورکوئی کتاب داخل نہ کرسکے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے1731ء میں بغرضِ حج وحصولِ علم حجاز کا سفر کیا، وہاں تقریباً ایک سال تک مقیم رہے اور وقت کے کبارِ علما و محدثین سے استفادہ کرکے اگلے سال ہندوستان لوٹے، آنے کے بعد ’’مہندیان‘‘ دہلی کے مدرسہ رحیمیہ سے ایک انقلابی نظام و نصابِ تعلیم کا آغاز کیا، ایسا نصاب، جس میں عربی ادب و نحو سے لے کر حسبِ ضرورت منطق وفلسفہ بھی پڑھائے جاتے تھے، مگر ان کی درسگاہ میں تفسیر، حدیث، اسرارِشریعت اور تفہیمِ سنت جیسے موضوعات کو اولیت حاصل تھی، ان کے مدرسے سے فارغ ہونے والا طالبِ علم ایک ایسا عالم ہوتا تھا، جو واقعتاً مسلمانوں کی ہر شعبۂ حیات میں راہنمائی وامامت کرنے کی صلاحیت سے لیس ہوتا تھا۔ علمِ حدیث میں اس سے پہلے ’’مشارق الانوار‘‘ اور پھر’’مشکوۃ المصابیح‘‘ کو ہی منتہی کتابیں باور کیا جاتا تھا، مگر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجاز سے واپس آنے کے بعد علمِ حدیث کی تدریس کا نیا منہج اور نظام شروع کیا اور ان ہی کی بدولت ہندوستان میں صحاحِ ستہ کی باقاعدہ تدریس کے دور کی ابتدا ہوئی، اسی وجہ سے شاہ صاحب کو ’’مسندالہند‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ بارہویں صدی ہجری سے لے کر اب تک سارے حدیث پڑھنے اور پڑھانے والوں کے اساتذہ کا سلسلہ اْن ہی سے ہو کرگزرتا ہے۔
اسی طرح شاہ ولی اللہ نے فقہ میں افراط وتفریط کی بجائے اعتدال و میانہ روی کی راہ نکالی اور فقہی مسائل میں ائمۂ متبوعین کے اختلافات میں تطبیق و توفیق کے لیے ایک خاص نہج کی گویا ’’دریافت‘‘ کی، جس مسئلے میں متعدد ائمہ فقہ کا اختلاف ہو، وہاں انھوں نے یہ موقف اپنایا کہ ان میں اولاً جمع وتطبیق کی کوشش کی جائے اور اگر ممکن نہ ہو، تو کسی بھی مسئلے میں جس امام کا قول یا مذہب حدیثِ صریح سے اقرب و اوفق ہو، اْسے اختیار کیا جائے۔ شیخ اکرام نے شاہ صاحب کی اس خوبی کو ان کی ذہانت ووسعتِ علمی کی علامت قرار دیتے ہوئے’’رودِ کوثر‘‘ میں لکھا ہے :
’’وہ اختلافی مسائل میں ایسا راستہ ڈھونڈتے ہیں اور اپنی علمی وسعت اور ذہانت کی مدد سے اکثر ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، جس پر فریقین متحدہوسکیں‘‘۔ (ص:582)
موجودہ دور میں، جب کہ مسلمانوں کے تمام مسالک و مکاتبِ فکر روحانی طور پر اپنے کو شاہ ولی اللہ دہلوی سے منسوب کرتے ہیں، اْنھیں فکرِ ولی اللہی کے اس پہلو پر خاص طور سے غور کرنا اور اسے کسوٹی بنا کر یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ان کا طرزِ عمل اْس پرکھرا اترتا ہے؟
شاہ صاحب کے زمانے میں ہندوستان میں ایک طبقہ صوفیوں کا بھی تھا، ان میں سے کچھ تو واقعی صوفی تھے، جن کی باطن کی دنیا منور وتابناک ہوتی اور جن کی نگاہِ دور رس میں تقدیروں کے بدلنے کی صلاحیت ہوتی تھی، مگر ایسے صوفی بہت کم تھے، البتہ اْن کے مقابلے میں ایسے صوفیوں کی بھرمار تھی، جنھوں نے تصوف کو کسبِ دنیا کا ذریعہ اور تقشف کو بھولے بھالے عوام کو پھنسانے کا وسیلہ بنا رکھا تھا، ان کی اپنی ایک دنیا تھی اور وہ اس دنیا میں کسی کو اپنا شریک و سہیم نہیں دیکھنا چاہتے تھے، یہ لوگ ذاتی مفادات کی برآوری کے لیے شرعی استدلالات کا سہارا لیتے اور عامۃ المسلمین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ گویا وہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں، ایسے ہی لوگوں کی بدولت مسلمانوں میں عقیدے کی بے شمارگمراہیوں اور کج رویوں کے ساتھ بدعملیوں کے بھی ان گنت دروازے کھل گئے تھے۔ الغرض ان دنیا دار متصوفین نے مذہب و شریعت کو بازیچۂ اطفال بنا رکھا تھا۔ شاہ صاحب کے گرد وپیش میں بھی اور ہندوستان بھر کے طول وعرض میں بھی ایسے پاکھنڈیوں کے ٹولے پائے جاتے تھے، جو مسلمانوں کی دنیا و عقبیٰ دونوں کی تباہی کا سامان کر رہے تھے؛ حالانکہ شاہ صاحب سے پہلے مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اس حوالے سے غیر معمولی جدوجہد کی تھی اور ہندی مسلمانوں کے فکر وعقیدہ کی تصحیح وتحفظ کے لیے جاں توڑ کوششیں کی تھیں، مگر بہت جلد ہی ان کی تعلیمات کے اثرات معدومیت کی کگار پر پہنچ چکے تھے اور عقیدہ وعمل کی گمراہیوں میں ہندوستان کے مسلمان بری طرح ملوث تھے، اس میں اہم رول ان صوفیوں کا تھا، جن کا ظاہر چمکدار، مگر باطن سیاہ وخوف ناک تھا۔
شاہ صاحب نے ایسے دنیا دار صوفیوں کے مزعومات کے خلاف جم کر لکھا، اْنھوں نے شرعی نصوص کی روشنی میں احسان وسلوک کی تعریف و حقیقت اور اس کے صحیح مصداق کی تعیین کی اور اْن تمام اعمال، رواجوں اور رسم ہاے بد کی دھجیاں بکھیر دیں، جنھیں جاہل ونادان مسلمان ضروریاتِ دین یا کارِثواب سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ پھر انھیں دین کی حقیقت سے روشناس کرایا، ان اعمال کی نشاندہی کی، جن کی ادائیگی مشروع ہے اور جن کے کرنے پر واقعتا ثواب مرتب ہوتا ہے۔
قرآن، حدیث اور عقیدہ و عمل کے تعلق سے شاہ صاحب کے یہ نمایاں ترین کارنامے ہیں اور ان کو آپ کے تمام تر فتوحات کی ایک جھلک کہا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں علمی انقلاب، فکری وعملی بیداری اور اصلاح کی تحریک اٹھانے میں مجدد الفِ ثانیؒ کے بعد شاہ صاحب کا کردار غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، پھر شاہ صاحب کی اِس تحریک کو ان کے خانوادے کے مایہ ناز سپوتوں نے آگے بڑھایا اور شاہ عبدالقادرؒ ، شاہ رفیع الدینؒ ، شاہ عبدالعزیزؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے برصغیرکے مسلمانوں پر اتنے احسانات کیے ہیں کہ سارا برصغیر رہتی دنیا تک ان کا قرض نہیں چکا سکتا۔