شفیق الدین
المیہ ہے کہ مسلمان دعا کی حقیقت سے واقف نہیں ہے، رسمی رواجی طور پر چند رٹے ہوئے الفاظ دہرا کر منہ پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں، اور اسی کو دعا سمجھتے ہیں، حالانکہ دعا ایک حقیقت رکھتی ہے، کچھ شرائط و ضوابط چاہتی ہے اور چند آداب کا تقاضا کرتی ہے، اگر اْن آداب کی رعایت کی جائے، تب دعا عند اللہ مقبول ہوگی اور اپنا اثر دکھائے گی اور اگر اْن آداب کی رعایت کیے بغیر دعا مانگی جائے، تو اس میں جان نہ ہوگی اور اس کے ذریعے حاجات پوری نہ ہوں گی۔ دعا کے چند آداب ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں۔
اخلاص اور یقین
دعا گہرے اخلاص اور پاکیزہ نیت کے ساتھ مانگی جائے، اپنی دعاؤں کو نمود ونمائش، ریا کاری اور شرک سے پاک رکھا جائے، اور پورے یقین اور وثوق کے ساتھ دعا مانگی جائے کہ وہ ہمارے حالات سے پورا واقف اور انتہائی مہربان ہے، وہ اپنے بندوں کی پکار کو سنتا ہے اور ان کی دعاؤں کو قبول بھی فرماتا ہے۔
خشوع و خضوع
دعا کرتے وقت خشوع خضوع اور بتکلف اپنے اوپر منت، سماجت اور رونے کی کیفیت کو ظاہر کرنا نہایت ضروری ہے۔ سیدنا ابو بکرصدیقؓ کا فرمان ہے کہ اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسے شکل ہی بنا لو، رونے والی دعا رنگ لاتی ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر نبیؐ کے پوری رات رونے نے کیا اثر دکھلایا کہ چھوٹی سی جماعت نے کفار مکہ کو شکست فاش دے دی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی ساری رات آہ وزاری نے دشمن کے بحری بیڑے کو غرق کردیا، دعائیں آج ان صفات سے خالی ہیں۔
ظاہر اور باطن کو پاک رکھنا
دعا مانگتے وقت ظاہری آداب، طہارت، پاکیزگی کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے اور قلب کو بھی ناپاک جذبات اور گندے خیالات سے پاک رکھنا چاہیے۔
دعا دل سے مانگنی چاہیے
نبیؐ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا کو قبول نہیں کرتا۔ (مسلم )
بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ
بات جو دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے
پرَ نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اس لیے دعا کرتے وقت ہمہ تن متوجہ ہو کر دعا مانگنی چاہیے۔
تنگ نظری
دعا میں تنگ نظری اور خود غرضی سے بھی بچنا چاہیے اور خدا کی عام رحمت کو محدود سمجھنے کی غلطی کر کے اس کے فیض و بخشش کو اپنے لیے خاص کرنے کی دعا نہ کرنی چاہیے۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ مسجدِ نبوی میں ایک بدو آیا، اس نے نماز پڑھی، پھر دعا مانگی اور کہا اے خدا! مجھ پر اور محمدؐ پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’تو نے خدا کی وسیع رحمت کو تنگ کردیا۔‘‘ (بخاری)
مسنون دعائیں
جو دعائیں نبی اکرمؐ نے اپنی مبارک زبان سے مانگی ہیں، ان کا اہتمام کرنا چاہیے، ان ادعیہ نے قبولیت کے درواز ے دیکھ رکھے ہیں اور عربی میں مانگنے کو ترجیح دی جائے۔ علامہ شامی نے اس پر بڑی تاکید فرمائی ہے۔
دعا کے ساتھ اسباب
صرف دعا پر اکتفا کرنا کہ اے اللہ! مجھے گھر بیٹھے بیٹھے رزق دے دے اور پورا دن گھر میں پڑا رہے، کوئی سبب اختیار نہ کرے، ایسی دعا کہاں قبول ہوگی؟
نبی اکرمؐ غزوہ خندق میں بھوک کی وجہ سے نڈھال ہورہے تھے، لیکن سبب اختیار کرنے (کچھ سالن اور روٹی ملنے) کے بعد آپ نے برکت کی دعا مانگی، تب دعا کے اثرا ت ظاہر ہوئے۔
دعا مانگتے رہنا چاہیے
خدا کے حضور اپنی عاجزی، احتیاج اور عبودیت کا اظہار خود ایک عبادت ہے، خدا نے خود دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بندہ جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی سنتا ہوں۔ اس لیے دعا مانگنے سے کبھی نہ اکتائیے اور اس چکر میں کبھی نہ پڑئیے کہ دعاسے تقدیر بدلے گی یا نہیں، تقدیر کا بدلنا نہ بدلنا، دعا کا قبول کرنا یا نہ کرنا خدا کا کام ہے، جو علیم و حکیم ہے۔ بندے کا کام بہر حال یہ ہے کہ وہ ایک فقیر اور محتاج کی طرح برابر اس سے دعا کرتا رہے اور لمحہ بھر کے لیے بھی خو د کو بے نیاز نہ سمجھے، نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ ’’سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو دعا کرنے میں عاجز ہو۔ ‘‘ (طبرانی)
باتکلف قافیہ بندی
دعا سادہ انداز میں مانگنی چاہیے، باتکلف قافیہ بندی، گانے اور سر ہلانے سے پرہیز کرنا چاہیے، نبی اکرمؐ نے اس سے منع فرمایا ہے اور ایسی کیفیت کو ناپسند فرمایا ہے۔
قبولیتِ دعا کے خاص اوقات وحالات
خدا سے ہر آن دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ وہ اپنے بندوں کی فریاد سے کبھی نہیں اکتاتا، البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ خاص اوقات اور مخصوص حالات ایسے ہیں، جن میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں، لہذا ان مخصوص حالات میں دعاؤ ں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ ذیل میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے :
*رات کے پچھلے حصہ میں۔ *شبِ قدر میں۔ *عرفہ کے دن یعنی 9 ذی الحجہ کو۔ *جمعے کے مخصوص اوقات میں (خطبے کے شروع ہونے سے نماز کے ختم تک یا اس دن نماز عصر کے بعد سے نماز مغرب تک )۔ *اذان کے وقت *میدانِ جہاد میں صف بندی کے وقت۔ *اذان اور تکبیر کے درمیانی وقفے میں۔ *رمضان کے مبارک ایام میں، بالخصوص افطارکے وقت۔ *فرض نمازوں کے بعد۔ *سجدے کی حالت میں۔ *شدید مصیبت اور انتہائی رنج و غم کی حالت میں۔ *کسی دینی مجلس میں۔ *قرآن پاک کے ختم کے وقت *بارش برسنے کے وقت۔
ان تمام اوقا ت وحالات میں دعاکی قبولیت کی تصدیق احادیث مبارکہ میں آئی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آداب کے ساتھ دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!