جہیز۔۔۔ غلط فہمی کا ازالہ

308

محمد شاہنواز قاسمی
رسول اکرمؐ نے فرمایا: عورت سے نکاح چار اسباب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب و نسب کے باعث، اس کے حسن وجمال کے سبب اور اس کے دین کے تعلق سے؛ لہٰذا تم دین دار خواتین کو منتخب کرو۔ (مسلم، بخاری)
جہیز کی حقیقت
جہیز اور بری یہ دونوں درحقیقت زوج (لڑکے والوں کی) طرف سے زوجہ یا اہل زوجہ کو ہدیہ ہے اور جہیز جو درحقیقت اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے فی نفسہ امر مباح بل کہ مستحسن ہے۔
اگر خدا کسی کو دے تو بیٹی کو خوب جہیز دینا برا نہیں؛ مگر طریقے سے ہونا چاہیے، جولڑکی کے کچھ کام بھی آئے۔
جہیز میں قابل لحاظ امور
جہیز میں اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے: اوّل تو اختصار یعنی گنجائش سے زیادہ کوشش نہ کرے۔
دوم: یہ کہ ضرورت کا لحاظ کرے؛ یعنی جن چیزوں کی ضرورت فی الحال ہو وہ دینا چاہیے۔
سوم: یہ کہ اعلان نہ ہو؛ کیونکہ یہ تواپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے، دوسروں کو دکھلانے کی کیاضرورت ہے؟ نبی اکرمؐ کے فعل سے جو اس روایت میں مذکور ہے تینوں امر ثابت ہیں۔

سیدہ فاطمہؓ کا جہیز
سیّدۃ النساء فاطمہؓ کا جہیز یہ تھا: دو یمنی چادر، دو نہالی جس میں اَلسِی کی چھال بھری تھی، چار گدے، چاندی کے دو بازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ اور پانی رکھنے کا برتن یعنی گھڑا اور بعض روایتوں میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ (ازالۃ الخفا واصلاح الرسوم)
سیدہ فاطمہؓ کے جہیز کی حقیقت
ہمارے معاشرے میں جب جہیز کی بات آتی ہے تو سارے عہد نبوی سے ایک سیدہ فاطمہؓ کی اکلوتی مثال کو اس قدر زور بیان اور قوت استدلال فراہم کردیا جاتا ہے؛ گویا سنت نبوی کا تمام تر انحصار اسی پر ہے۔ سیدہ فاطمہؓ کے اسباب کے ذریعے جہیز کو مسنون ثابت کرنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ رسولؐ کی اور دیگر صاحب زادیاں تھیں، آپ نے اْنھیں کتنا سامانِ جہیز دیا، اگر نہیں دیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ رسولؐ یہ تلقین فرمارہے ہیں: اولاد کو عطیہ دینے میں مساوات کو پیش نظر رکھو۔ (بیہقی)
ایک صحابی نعمان بن بشیرؓ اپنے ایک بیٹے کو عطیہ دینے کے سلسلے میں گواہ بنانے حاضر ہوئے توآپ نے پوچھا: کیا ساری اولاد کو اسی طرح کے عطیات دے رہے ہو؟ اْنھوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اولاد کے بارے میں انصاف سے کام لو، کسی ایک کو دینا دوسرے کو نظر انداز کردینا ظلم ہے اور میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔ (متفق علیہ)

رسولؐ کے ہاں یہ معاملہ آتا ہے تو ایک بیٹی کو جہیز دے کر روانہ کرتے ہیں اور دوسری بیٹیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، حالانکہ آپؐ کا ارشاد ہے: میں انصاف نہیں کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟
بخدا دامنِ نبوت ہر قسم کی نا انصافی سے پاک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر صحیح روایت سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ نے سیدہ فاطمہؓ کے گھرکا سامان اپنے پاس سے دیا اور اْن چار سو اسی دراہم سے نہیں خریدا گیا جو علیؓ نے اپنا واحد اثاثہ (غزوۂ بدر میں ملنے والی زرہ) فروخت کرکے حاصل کیا تھا تو بھی صورتِ حال کچھ اور تھی۔
بعثتِ نبوی سے پہلے کی بات ہے۔ رسولؐ کو اپنے چچا ابوطالب کی معاشی تنگی کا شدت سے احساس تھا، ایک روز آپ نے اپنے دوسرے چچا عباسؓ سے کہا: آئیے ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ان کا ایک بیٹا میں لے لیتا ہوں، ایک آپ لے لیں۔ اس طرح ان کی معاشی ذمے داری کم ہوجائے گی۔ چنانچہ آپؐ نے علیؓ کی کفالت کی ذمے داری لی جو شادی تک آپ کے ساتھ رہے۔ چونکہ علیؓ کی کفالت آپ کے ذمے تھی، اِسی لیے مدینہ منورہ میں مواخات کے موقع پر جب ایک انصاری اور ایک مہاجر کو بھائی بنایا گیا توآپؐ نے علیؓ کا ہاتھ پکڑکر فرمایا: یہ میرا بھائی ہے۔
مطلب یہ تھا کہ اس کی کفالت جس طرح مکہ معظمہ میں میرے ذمے تھی اب بھی میرے ذمے ہے۔ چونکہ علیؓ کی کفالت آپ کی ذمے داری تھی، اِس لیے علیؓ نے جب نیا گھر بسانے کا اِرادہ کیا تو آپ نے اْن کے سرپرست ہونے کی ذمے داری پوری کرتے ہوئے کچھ ضروری سامان دیدیا، جسے بعد میں ہوس پرستوں نے کچھ کا کچھ کردیا۔

مروجہ جہیز کی خرابیاں
مگر اب جس طرح سے اس کا رواج ہے اس میں طرح طرح کی خرابیاں ہوگئی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ اب ہدیہ مقصود رہا نہ صلہ رحمی۔ بلکہ ناموری اور شہرت اور رسم کی پابندی کی نیت سے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہیز کا اعلان ہوتا ہے، متعین اشیا ہوتی ہیں، خاص طرح کے برتن بھی ضروری سمجھے جاتے ہیں، جہیز کے اسباب بھی معین ہیں کہ فلاں چیز ضروری اور تمام برادری اور گھر والے اس کو دیکھیں گے، جہیز کی تمام چیزیں مجمع عام میں لائی جاتی ہیں اور ایک ایک چیز سب کو دکھلائی جاتی ہے اور زیور اور جہیز کی فہرست سب کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ آپ خود بتائیے یہ ریا دکھلاوا ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ زنانہ کپڑوں کا مردوں کو دکھلانا کس قدر غیرت کے خلاف ہے۔
اگر صلہ رحمی مقصود ہوتی تو کیف مااتفق جو میسر آتا اور جب میسر آتا بطور سلوک کے دے دیتے۔ اسی طرح ہدیہ اور صلہ رحمی کے لیے کوئی شخص قرض کا بار نہیں اٹھاتا، لیکن ان رسموں کو پورا کرنے کے لیے اکثر مقروض بھی ہوتے ہیں گو سود ہی دینا پڑے اور گو باغ ہی فروخت یا گروی ہوجائے پس اس میں الزام مالایلزم اور نمایش اور شہرت اور اسراف وغیرہ خرابیاں موجود ہیں۔ اِس لیے یہ بھی بطریق متعارف (مروجہ طریقے سے) ممنوعات کی فہرست میں داخل ہوگیا۔ (اِزالۃ الخفاء، اصلاح الرسوم)