امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ خود کلامی پاگل پن نہیں بلکہ ذہن اور یادداشت میں مثبت کردار ادا کرتی ہے، خود سے باتیں کرنا بالکل نارمل اور عام سی بات ہے، ایسے لوگوں کا دماغ بالکل درست ہوتا ہے۔
مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں 89 رضاکاروں پر تحقیق کی گئی جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی زندگی کے ایسے واقعات یاد کریں کہ جب انہیں شدید اعصابی تناؤ اور ناگوار حالات کا سامنا تھا اور ان کے ذہنوں پر منفی خیالات بھی مسلط تھے، کچھ رضاکاروں کو اعصابی تناؤ اور منفی خیالات پیدا کرنے والی تصاویر بھی دکھائی گئیں۔اس دوران الیکٹرو انسیفالو گرافی (ای ای جی) اور ایف ایم آر آئی نامی تکنیکوں کی مدد سے ان کے دماغوں میں اعصابی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی گئی جس سے ظاہر ہوا کہ ایسے واقعات کو یاد کرتے وقت ان افراد میں اعصابی تناو191 فیصدبڑھ گیا تھا۔
اس کیفیت میں مبتلا کرنے کے بعد رضاکاروں سے کہا گیا کہ وہ اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے یہ کیفیت ختم کرنے کی کوشش کریں۔ رضاکاروں نے اپنا نام لے کر خودکلامی کی تو ان میں اعصابی تناؤ کی کیفیت اور منفی جذبات کی شدت کم ہونے لگی۔
امریکی ماہر نفسیات کے مطابق خود کلامی کرنے والے افراد بہتر طور پر مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے خود کلامی پاگل پن نہیں بلکہ ذہن اور یادداشت کی ٹریننگ میں مثبت کردار ادا کرتی ہے خود سے باتیں کرنا بالکل نارمل اور عام سی بات ہے، ایسے لوگوں کا دماغ بالکل درست ہوتا ہےاور انہیں پاگل نہیں کہا جاسکتا بلکہ خود کلامی انسانوں کیلئے صحت مند ہے۔خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کو باقاعدگی سے خود کلامی کرنا چاہئے تاکہ دیگر افراد کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔