فکر کے دریچے وا کرنے والے اداریے

539

zc_Afsha Naveed11 اکتوبر جسارت کے ادارتی صفحے پر عظیم سرور صاحب کا کالم پڑھا جو مظفراعجاز صاحب کی کتاب ’’قلم رو‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا تھا۔ بلاشبہ آج کا اخبار آنے والے کل کی ردی بن جاتا ہے اور عموماً خواتین کچن میں مختلف مصارف میں لے آتی ہیں یا ماسیوں اور ردی والوں کی روزی روٹی کے کام آتا ہے۔۔۔!!
چاہے ادارتی صفحے کے کالم ہوں یا اداریے حقیقتاً یہ ملک کی تاریخ ہوتے ہیں اور لکھنے والا اپنے عہد کی تاریخ لکھ رہا ہوتا ہے۔ اگر آج سے پچیس برس قبل کے اخبارات کے کالم اور اداریے ہماری نوجوانوں نسل پڑھے گی تو حیران ہوگی کہ اس وقت کے مسائل کتنے مختلف تھے اور سوچنے کے انداز بھی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ تمدن بھی تبدیلی سے ہمکنار ہوتا ہے یہاں تک کہ سوچنے کا اندز بھی، اور جو اپنے ماضی سے نہیں جڑے ہوتے ان کا ’’حال‘‘ بھی بڑا ادھوارا اور سونا سونا ہوتا ہے۔ ہمارا ماضی جیسا بھی ہو ہماری قوت ہے اور ہر دو حال میں ہمیں آگے بڑھنے اور روشن مستقبل میں دیکھنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔



کتنا اچھا ہوتا کہ کتاب چھپوانا لکھنے والے کی ذمے داری نہ ہوتی کیوں کہ لکھنے سے زیادہ مشکل کتاب چھپوانا ہے اور اکثر لوگ تو اس کارِ دارد کے تصور ہی سے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ مثلاً ہم نے جب اطہر ہاشمی بھائی سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ کی کتاب کب چھپ رہی ہے انہوں نے الٹا ہم سے سوال کیا کہ آپ مجھے اتنا بے وقوف سمجھ رہی ہیں۔ اس بے کار کام کے لیے میرے پاس وقت نہیں۔‘‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کے پاس دیگر مصروفیات ہیں لیکن کسی کی علمی اور فکری صلاحیتوں کا آگے نسلوں کو منتقل نہ ہونا محض اس بنا پر کہ فرد کو خود اس امر میں دلچسپی نہیں تھی ہمارا بڑا نقصان ہے۔
بات سادہ سی ہے جسارت اخبار کے اداریے دوسرے کسی بھی اخبار کے مقابلے میں بہت سے حوالوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ بہت سے اداریے میں اپنی فائل میں محفوظ کر لیتی ہوں کہ بوقت ضرورت حوالوں کے کام آتے ہیں۔ ہر اخبار کے اداریے میں حالات حاضرہ پر تبصرہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن ایک ہی واقعے پر آپ دس عینی شاہدین کی رائے لیں ہر ایک مختلف پیرائے میں بیان کرے گا۔ دو آنکھوں کے پیچھے ایک دماغ ہی نہیں دل کی موجودگی بھی ایک معنی رکھتی ہے۔ اگر یہ کہوں کہ جسارت کے اداریے دھڑکتا ہوا دل ہیں اور دل بھی ایک ماں کا دل۔ ممتا جو محبت کے ساتھ ساتھ اضطراب کا استعارہ ہے۔ ایک بے چین اور ہر لمحے فکر مند رہنے والی ہستی۔ جسارت کے اداریے ایک طرف امت کا سچا درد لیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف حالات حاضرہ کا تجزیہ ایک درد مند مسلمان کی فکر کی عکاسی ہوتا ہے۔



عموماً مذہبی اور تاریخی کتابیں اتنی خشک ہوتی ہیں کہ کم ہی لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن مذہب، تاریخ یا سیاست پر لکھنے والا قلم اگر کسی منجھے ہوئے ادیب کا قلم ہو تو وہ ہر موضوع میں جدت پیدا کر دیتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ جسارت کے اداریے کس وقت کس نے لکھے۔ لیکن جسارت کے اداریوں کی ادبی چاشنی گواہی دیتی ہے کہ کسی ادیب کے قلم سے لکھے گئے ہیں جس کا مزاح نگاری میں بھی اپنا خاص مقام ہے۔ مزاح نگاری ہر ایک کے بس کی بات نہیں سنجیدہ بات کو ٹھٹھوں میں اڑا دینا بھی مزاح نہیں۔ لیکن حالات کا تجزیہ اس طرح پیش کرنا کہ اس میں ظرافت کا رنگ بھی جھلکے یقیناًزندگی کے بوجھل پن کو کم کر دیتا ہے۔ ایسا بوقت ضرورت ہی ہوتا ہے۔
جسارت چوں کہ نظریاتی اخبار ہے۔ اس کی سوچ اسی نظریے کی عکاس ہوتی ہے، اور اداریے بلاشبہ ٹھوس نظریاتی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے مختلف فورموں پر جہاں جسارت پڑھنے پر توجہ دلائی جاتی ہے وہاں اس بات پر خصوصی زور دیا جاتا ہے کہ جسارت کے اداریے ضرور پڑھے جائیں۔ بسا اوقات کسی معاملے پر جہاں فکر یکسو نہ ہو اداریہ بہت عمدگی سے وہ یکسوئی فراہم کر دیتا ہے۔
صحافت ریاست کا چوتھا ستون بن چکی ہے۔ ہم تو شام کو رات تک مختلف ٹی وی چینلوں پر صحافتی جوہر دکھانے والے میزبانوں کے ’’نرخ‘‘ پڑھ کر حیران رہ گئے کہ وہ تو اپنی ماہانہ تنخواہ سے پوش علاقے میں بنگلہ بک کرا کے دو چار ماہانہ قسطوں کی ادائیگی کے بعد اس کے مالک بن سکتے ہیں۔ اخبارات بھی صنعت کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ ایسے میں مادی فوائد سے بے نیاز کسی نظریاتی محاذ پر تمام عمر یکسوئی سے ڈٹے رہنا بڑے مجاہدے کا کام ہے۔ اس اخبار کا ادارتی صفحہ پڑھنے والا قاری ملکی اور بین الاقوامی حالات کا ٹھوس تجزیہ صحیح فکر کے ساتھ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ عظیم خدمات انجام دینے والے فقیر منش ہر صلے اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز دین کی خدمت سمجھ کر اس ذمے داری کی ادائیگی میں لگے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ اللہ کے پاس اس کے عوض جو کچھ ہے اس کا ہم تصور نہیں کر سکتے۔



مظفر اعجاز صاحب کے کالموں کی کتاب پر خوب صورت تبصرہ پڑھ کر قلم اس لیے اٹھایا کہ آپ تک یہ بات پہنچا سکوں کہ جسارت کے قارئین کی یہ خواہش ہے کہ اس کے اداریوں پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دی جائے۔ جسارت کی خدمات تو کئی عشروں پر محیط ہیں۔ بہت بڑے کام کا سوچ کر تو پہلا قدم ہی اتنا بوجھل ہو جاتا ہے کہ اگلا قدم اٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اچھا ہو کہ مختصر مدت کا تعین کر لیا جائے مثلاً یہ کہ ہر پانچ برس بعد اداریوں پر مشتمل ایک کتاب شائع ہو۔ ظاہر ہے کہ جیسے ہر کالم کو کتاب میں شامل نہیں کیا جاتا اسی طرح ہر ادایے کی اشاعت بھی لازم نہیں لیکن جو ہمہ گیر نوعیت کے ہوں۔ جو خاص حالات واقعات کی عکاسی کرتے ہوں۔ یوں تو ہر دن کا اداریہ ہی خاص ہوتا ہے اس لیے کہ دو دن کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن اگر آپ ماضی کے بہت سے دنوں کا اخباروں کی روشنی میں جائزہ لیں تو کچھ دن اہم اور کچھ اہم ترین ہوتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اس خواہش کے اظہار کے لیے اب تک کی تحریر کافی ہے کہ جسارت کے اداریوں کو کتابی شکل دی جائے۔ ان اداریوں کی صورت میں عرق ریزی سے ایک تاریخ مرتب کی جا رہی ہے۔ تھوڑی سی محنت اور توجہ سے اس کو ردی کے ڈھیر سے نکال کر کتابی صورت میں لا کر ہم آنے والی نسلوں کو ٹھوس فکری غذا اور تجزیہ مہیا کرسکتے ہیں۔ جسارت کے اداریے اگر کہیں اسٹیتھسکوپ ہیں جن سے ہم مسلم امہ کے دل کی دھڑکن سنتے ہیں تو کہیں آکسیجن ماسک جو ڈولتے وجود کو امید کی نئی آکسیجن فراہم کرتے ہیں کہیں وہ ڈرپ ہیں جو نظریات کی آب یاری کے لیے قطرہ قطرہ جسم میں سرایت کرتی ہے اور فاسد نظریات کا قلع قمع کر دیتی ہے اور کہیں وہ انجکشن جو لمحوں میں کام کرکے پژمردہ تن میں نئی جان ڈال دیتا ہے اور امید صبح نو سے قریب کر دیتا ہے۔
لکھنے والا ہمیشہ قلم کی سیاہی سے نہیں لکھتا کبھی خون جگر میں انگلیاں ڈبو کر کچھ تحریر کیا جاتا ہے۔ اخلاص کے ساتھ لکھے گئے ان اداریوں کا یہ قرض ہے ہم پر کہ ہم ان کی بقا کا اہتمام کریں۔ کالم پر تو تحریر کنندہ کا نام درج ہوتا ہے۔ اداریے پر کسی کا نام نہیں ہوتا اس لیے وہ ادارے کی اجتماعی ذمے داری بن جاتا ہے۔ جسارت کے اداریوں کو ضرور کتابی شکل میں شائع ہونا چاہیے۔