کے الیکٹرک کا ٹھیکیداری نظام ذریعے لوٹ مار کا انکشاف‘ بی الیکٹرک کے نام سے بلوں کا اجراء

725
کے الیکٹرک کے بجائے بی الیکٹرک کے جاری کیے گئے بل کا عکس
کے الیکٹرک کے بجائے بی الیکٹرک کے جاری کیے گئے بل کا عکس

کراچی (رپورٹ:محمد علی فاروق) کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی تقسیم کار کمپنی ’’ کے الیکٹرک‘‘ نے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ،اووربلنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے بعد شہریوں کو لوٹنے کے ایک نئے سلسلے کا آغاز کردیا ہے، بی الیکٹرک کے نام سے ٹھیکیداربرق انجینئرنگ سروسز کمپنی کے الیکٹرک کو ماہانہ مخصوص رقم ادا کرتی ہے ، جس کے بدلے ٹھیکیدار کمپنی کو صارفین پر مطلق اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ ان سے جتنی چاہے رقم وصول کرے ،کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی ۔ کے الیکٹرک نئے آباد ہونے والے علاقوں یا کراچی کے نواحی علاقوں میں میٹر کی تنصیب نہیں کرتی بلکہ ان علاقوں میں کنڈا سسٹم کے تحت بجلی فراہم کی جاتی ہے ۔ ان علاقوں میں کے الیکٹرک ایک ٹھیکیدار کو علاقے کا ٹھیکا سونپ دیتی ہے اور پی ایم ٹی پر نصب میٹر کے ذریعے یہ ٹھیکیدار صارفین سے منہ مانگی رقم وصول کرتا ہے ۔ ٹھیکیدار اور کے الیکٹرک کے مابین معاہدے کے تحت کے الیکٹرک بل کی وصولی پر 5فیصد کمیشن ٹھیکیدار کو دیتی ہے مگر معاملہ اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے ۔ ٹھیکیدار نے بدمعاشوں کی ایک فوج بھرتی کررکھی ہے جو بے بس صارفین کے گھروں پر جاکر غنڈہ گردی کرتے ہیں اور منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں۔جسارت کی تحقیقات کے مطابق یارو گوٹھ، نوردین گوٹھ، بھٹائی گوٹھ اور کنیز فاطمہ سوسائٹی سمیت درجنوں علاقوں میں کے الیکٹرک نے یہ غنڈہ گردی سسٹم رائج کررکھا ہے ۔



حیرت انگیز طور پر کے الیکٹرک تو اپنے صارفین کو میٹر نہیں لگا کر دے رہی مگر اس کے ٹھیکیداروں نے اپنے میٹر ضرور صارفین کے گھروں پر لگارکھے ہیں اور وہ باقاعدہ اپنی کمپنی کے بل چھاپ کر صارفین سے وصولیاں کررہے ہیں ۔ یارو گوٹھ میں اس ٹھیکیداری نظام کے لیے کے الیکٹرک نے برق انجینئرنگ سروسز کمپنی کے ساتھ مئی 2014 ء میں باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا جس کی کاپی جسارت کے پاس موجود ہے ۔ اس معاہدے کے تحت کمپنی کا مالک مرتضیٰ کاشمانی ہے جس کا دفتر کے بلاک نارتھ ناظم آباد میں واقع ہے ۔ اس معاہدے کے مطابق یارو گوٹھ میں کنڈا سسٹم کے تحت بجلی فراہم کی جارہی ہے ۔ کے الیکٹرک اسی معاہدے میں کنڈا سسٹم کی تعریف ناجائز طریقے سے بجلی کو حاصل کرنا بتاتی ہے ۔ جسارت کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق اس سے قبل یارو گوٹھ میں ٹھیکیداری سسٹم 2012 ء سے الریمان الیکٹرک سروسز کو دیا گیا تھا جس کا منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر راہد حسین تھا ۔ یہ فرم گورنمنٹ کنٹریکٹر کا لائسنس رکھتی تھی اور اس کا کنٹریکٹ 2014ء میں منسوخ کرکے مرتضیٰ کاشمانی کی فرم کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں جب کے الیکٹرک سے مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا توانہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا ۔ مرتضیٰ کاشمانی نے بھی بات کرنے سے انکار کردیا ۔ نیپرا کے ایک افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرجسارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب کچھ غیر قانونی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک ایک ایسا ہاتھی بن چکا ہے جس پر عدالت، نیب اور نیپرا سمیت کسی کا کوئی زور نہیں چلتا ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قانونی طور پر یہ کے الیکٹرک کی ذمے داری ہے کہ وہ صارفین کو درست میٹر کے ساتھ کنکشن دے مگر کے الیکٹرک مسلسل اس کی خلاف ورزی کررہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر تو کے الیکٹرک کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے کہ اس نے کتنی وصولی کی اور اس کے ٹھیکیدار نے کتنی وصولی کی ۔