میئر کراچی کے دعوے

375

Edarti LOHمیئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ چھرا مار کو پکڑنے کا کام ہمارے حوالے کیا جائے، ہم نے بڑے دہشت گردوں کو نمٹایا چاقو باز کو تو ہمارے سٹی وارڈنز بھی پکڑ سکتے ہیں۔ وسیم اختر کا دعویٰ درست ہے کیوں کہ ان کو دہشت گردوں کے طور طریقوں سے خوب واقفیت ہے، ایک معمولی چاقو باز کی بھلا کیا حیثیت۔ وسیم اختر خود کچھ عرصہ پہلے تک دہشت گردوں کے سرغنہ اور مربی الطاف حسین کے چہیتے رہ چکے ہیں اور اسی غدار وطن نے وسیم اختر کو سندھ کا مشیر داخلہ بنایا تھا۔ اسی دور میں مشیر داخلہ کی نگرانی میں 12مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام ہوا تھا اور مشیر داخلہ نے ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پولیس سے اسلحہ رکھوا کر اسے تھانوں تک محدود کردیا تھا۔ یہ سب کچھ صرف جنرل پرویز مشرف کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا جس نے ایم کیوایم کی دہشت گردی کو عوامی طاقت قرار دیا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی کراچی آمد سے کسی کو پریشانی نہیں تھی۔ قاتلوں اور ان کے سرپرستوں سے سب ہی واقف تھے لیکن آج تک کسی کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے بھی قاتلوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی۔ دونوں نے مل کر کراچی کو خوب لوٹا۔ ایم کیو ایم تو کراچی ہی میں گل کھلاتی رہی لیکن پیپلز پارٹی پورے سندھ کو لوٹ رہی ہے اور لٹیرے لٹیروں پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ ایم کیو ایم کے دہشت گرد جب شہر میں گولیاں برساتے پھر رہے تھے تو ان کی فلم ٹی وی چینلوں پر چل رہی تھی چنانچہ ایک ٹی وی چینل پر بھی حملہ کردیا گیا۔ وسیم اختر کھڑے ڈھول بجاتے رہے۔ معاملہ عدالت میں آیا تو ہزاروں افراد نے عدالت کا محاصرہ کرلیا اور وکیلوں تک کو اندر نہیں جانے دیا گیا۔ ایم کیو ایم کی طرف سے ایک مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیا گیا کہ ایک رات پہلے جماعت اسلامی اور جمعیت کے لوگوں کو نعمت اللہ خان کے گھر پر جمع کر کے سب میں ایم کیو ایم کے جھنڈے تقسیم کیے گئے تاکہ وہ یہ جھنڈے اٹھا کر گولیاں برساتے رہیں۔ لیکن جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، اے این پی وغیرہ کسی کو بھی چیف جسٹس افتخار چودھری کی کراچی آمد سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، مسئلہ جنرل پرویز کو تھا چنانچہ انہوں نے اپنی پروردہ ایم کیو ایم کو ہشکار دیا۔ آج وسیم اختر ایک چاقو باز کو پکڑ لینے کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ لیکن بطور مشیر داخلہ انہوں نے مئی 2007ء کے دہشت گردوں میں سے کتنوں کو گرفتار کیا، وکیلوں کو ان کے دفاتر میں زندہ جلانے والے سفاک قاتلوں کو گرفت میں لیا؟



دعویٰ یہ ہے کہ شہر کا امن عزیز ہے اور کون نہیں جانتا کہ شہر کا امن ان کی پارٹی ایم کیو ایم اور اس کے سرغنہ ہی نے تباہ کیا۔ کہتے ہیں کہ چھرا مار کو پکڑنے کا کام ہمارے حوالے کیا جائے۔ کل کو وہ کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں، ہم کیسے پکڑ لیں۔ لیکن یہ کام کرنے سے روکا کس نے ہے، پکڑ لیں۔ اس کے لیے باقاعدہ کوئی معاہدہ کرنے کی ضرورت تو نہیں۔ مگر میئر صاحب کا جو کام ہے وہ تو کرلیں ۔ شہر سے کچرا ہی اٹھوادیں، ابلتے ہوئے گٹر ہی ٹھیک کروا دیں ۔ گلی گلی میں بڑھتی ہوئی گندگی سے شہر میں ڈینگی اور چکن گونیا کے امراض وبائی نوعیت اختیار کرچکے ہیں اور میئر صاحب وسائل نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کی صفائی کے لیے جو وعدہ شہریوں سے کیا ہے اسے پورا کریں گے۔ لیکن یہ وعدہ کب پورا ہوگا۔ اگلے دن میئر کراچی وسیم اختر نے اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی کے لوگ چائنا کٹنگ میں ملوث ہیں ۔ اب ایسی تمام تجاوزات اور قبضے ختم کرائے جارہے ہیں ۔ وسیم اختر صاحب یہ ضرور بتائیں کہ جب ان کی پارٹی کے لوگ یہ کام کررہے تھے تو وہ کہاں تھے۔ آج سابق میئر کراچی مصطفی کمال بھی نہا دھو کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم پرتنقید کر کے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ بھی الطاف حسین کے جرائم میں برابر کے شریک تھے بلکہ اس سے بڑھ کر کہ وہ تو لندن میں بیٹھا ہوا تھا، اس کے احکامات پر عمل کرنے والے زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ الطاف حسین نے اپنے ارکان اسمبلی کو چائنا کٹنگ میں ملوث قرار دے کر دھمکی دی تھی کہ کراچی آ کر سب کو ٹھیک کردوں گا، بہت مال بنایا ہے۔ لیکن نہ وہ کراچی آیا اور نہ اس کے پروردہ اپنے کام سے باز آئے۔ مصطفی کمال اور فاروق ستار کے بارے میں ان کے لیڈر اور بانی تحریک نے جو کچھ کہا ہے اور جیسی گالیاں دی ہیں وہ ان تک بھی پہنچی ہوں گی۔ ستم یہ ہے کہ عوام خود دہشت گردوں، بھتا مافیاؤں، قبضہ گیروں اور جرائم میں ملوث افراد کو منتخب کر کے اپنی تقدیر ان کے حوالے کردیتے ہیں ۔ سندھ پر حکمران پیپلز پارٹی اور اس کے رہنماؤں کے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور اس وقت حیرت ہوتی ہے جب دوسروں پر کرپشن کا الزام لگایا جاتا ہے۔ جب تک عوام صحیح اور غلط میں امتیاز نہیں کریں گے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ۔ اور عام انتخابات میں بھی کسی بڑی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ میئر کراچی سب کام چھوڑ کر چاقو باز کو پکڑیں، کچھ تو کریں ۔