دعویٰ یہ ہے کہ شہر کا امن عزیز ہے اور کون نہیں جانتا کہ شہر کا امن ان کی پارٹی ایم کیو ایم اور اس کے سرغنہ ہی نے تباہ کیا۔ کہتے ہیں کہ چھرا مار کو پکڑنے کا کام ہمارے حوالے کیا جائے۔ کل کو وہ کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں، ہم کیسے پکڑ لیں۔ لیکن یہ کام کرنے سے روکا کس نے ہے، پکڑ لیں۔ اس کے لیے باقاعدہ کوئی معاہدہ کرنے کی ضرورت تو نہیں۔ مگر میئر صاحب کا جو کام ہے وہ تو کرلیں ۔ شہر سے کچرا ہی اٹھوادیں، ابلتے ہوئے گٹر ہی ٹھیک کروا دیں ۔ گلی گلی میں بڑھتی ہوئی گندگی سے شہر میں ڈینگی اور چکن گونیا کے امراض وبائی نوعیت اختیار کرچکے ہیں اور میئر صاحب وسائل نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کی صفائی کے لیے جو وعدہ شہریوں سے کیا ہے اسے پورا کریں گے۔ لیکن یہ وعدہ کب پورا ہوگا۔ اگلے دن میئر کراچی وسیم اختر نے اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی کے لوگ چائنا کٹنگ میں ملوث ہیں ۔ اب ایسی تمام تجاوزات اور قبضے ختم کرائے جارہے ہیں ۔ وسیم اختر صاحب یہ ضرور بتائیں کہ جب ان کی پارٹی کے لوگ یہ کام کررہے تھے تو وہ کہاں تھے۔ آج سابق میئر کراچی مصطفی کمال بھی نہا دھو کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم پرتنقید کر کے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ بھی الطاف حسین کے جرائم میں برابر کے شریک تھے بلکہ اس سے بڑھ کر کہ وہ تو لندن میں بیٹھا ہوا تھا، اس کے احکامات پر عمل کرنے والے زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ الطاف حسین نے اپنے ارکان اسمبلی کو چائنا کٹنگ میں ملوث قرار دے کر دھمکی دی تھی کہ کراچی آ کر سب کو ٹھیک کردوں گا، بہت مال بنایا ہے۔ لیکن نہ وہ کراچی آیا اور نہ اس کے پروردہ اپنے کام سے باز آئے۔ مصطفی کمال اور فاروق ستار کے بارے میں ان کے لیڈر اور بانی تحریک نے جو کچھ کہا ہے اور جیسی گالیاں دی ہیں وہ ان تک بھی پہنچی ہوں گی۔ ستم یہ ہے کہ عوام خود دہشت گردوں، بھتا مافیاؤں، قبضہ گیروں اور جرائم میں ملوث افراد کو منتخب کر کے اپنی تقدیر ان کے حوالے کردیتے ہیں ۔ سندھ پر حکمران پیپلز پارٹی اور اس کے رہنماؤں کے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور اس وقت حیرت ہوتی ہے جب دوسروں پر کرپشن کا الزام لگایا جاتا ہے۔ جب تک عوام صحیح اور غلط میں امتیاز نہیں کریں گے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ۔ اور عام انتخابات میں بھی کسی بڑی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ میئر کراچی سب کام چھوڑ کر چاقو باز کو پکڑیں، کچھ تو کریں ۔