ہم ایک عرصے سے انہی کالموں میں لکھ رہے ہیں کہ فوج سیاسی معاملات میں خاصی بیلغ ہوچکی ہے وہ مارشل لا کے بارے میں نہیں سوچے گی بلکہ زرداری حکومت کی طرح نواز حکومت کو بھی مدت پوری کرنے کا موقع دے گی۔ فوج کو جو کچھ کرنا ہے نگران حکومت کی تشکیل کے وقت کرے گی، ہم نے اس امکان کا بھی بارہا اظہار کیا ہے کہ فوج قومی حکومت بنانے پر غور کرے گی، اب اسے ٹیکنو کریٹ کی حکومت کہا جائے یا قومی حکومت کا نام دیا جائے مگر یہ طے ہے کہ نگران حکومت میں ایسے افراد شامل ہوں گے جو اپنے اپنے شعبے میں مہارت کے حامل ہوں گے اور اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ ایسی شخصیات کا انتخاب کیا جائے گا جو ملک و قوم کی خدمت سے سرشار ہوں ان کی نظر میں ذاتی مفادات اور تحفظات بے معنی ہوں وہ صرف اور صرف ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں، انہیں سرکاری مراعات اور سہولتوں سے کوئی دلچسپی نہ ہو، تنخواہ کے نام پر قومی خزانے پر بوجھ نہ بنیں۔
وطن عزیز میں افراد کی کمی نہیں جو ملک و قوم کی بہتری اور خوشحالی کے لیے کسی بھی لالچ سے بالاتر ہو کر اپنی خدمات اور توانائیاں وقف کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں مگر بدنصیبی یہ ہے کہ برسراقتدار اور بااثر و اختیار طبقہ انہیں موقع ہی نہیں دیتا۔ پرویز مشرف نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ملک و قوم کی خدمت بہتر انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن انہیں موقع نہیں دیا جاتا۔ جواباً ہم نے لکھا تھا کہ جنرل صاحب! اللہ نے آپ کو یہ موقع دیا تھا کہ باصلاحیت اور اہل افراد کو آگے لائیں ان کی صلاحیتوں سے ملک و قوم کو مستفید ہونے کا موقع دیں مگر آپ نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے ایسے افراد کو بااختیار اور بااثر بنایا جو اپنے گھر کو ملک اور اپنے خاندان کو قوم سمجھتے ہیں سو، ملک کے سارے وسائل ان کے لیے وقف کردیتے ہیں۔
بھارت پاکستان کو چار ٹکڑے کرنے کا برملا اظہار کررہا ہے اور سقوط ڈھاکا کی ذمے داری بھی قبول کرتا ہے۔ ہمیں خالصتان بنانے کا موقع ملا تھا مگر ہم نے کیا کیا؟؟ سکھوں نے ہم پر اعتبار کیا اور ہم نے ان کے اعتبار کا خون کردیا۔ خالصتان کی جدوجہد میں سرگرم اور فعال شخصیات کی فہرست بھارت کے حوالے کرکے ان کی تحریک کو ثبوتاژ کردیا۔ بھارت میں آزادی کی بہت سی تحریکیں چل رہی ہیں مگر ہم اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ بھارت پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی سازش کرسکتا ہے تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ اسی کی زبان میں جواب دیں۔ بھارت کے کسی سپاہی کا سر کاٹ کر اس کی نمائش کرنا کوئی عقل مندی نہیں، علیحدگی پسندوں کے سر پر تاج رکھنا دانش مندی کا تقاضا ہے اور یہی سیاست کی معراج ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اس معراج کے حصول کے لیے ہم آسمان سے کسی براق کے اترنے کے منتظر ہیں۔ شاید یہ انتظار امام مہدی کے اترنے تک برقرار رہے گا کہ ہم خود کچھ کرنے کے اہل نہیں رہے حالاں کہ ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو وہ کماتا ہے۔