سلامتی اور معیشت لازم وملزوم 

233

zc_ArifBeharوزیر خزانہ ملک کا معاشی حکمت کار ہوتا ہے۔ ملک کی معیشت سے متعلق تمام فیصلوں کی نگرانی وزیر خزانہ کی ذمے داری ہوتی ہے۔ پاکستان میں چار سال وزیر خارجہ کے نہ ہونے کا رونا دھونا کرتے بیت گئے۔ بدلے ہوئے حالات میں وزیر خارجہ تو مل گیا وہ حسین حقانی کی طرح داخلی پالیسیوں کی خارجی دنیا میں وکالت اور نمائندگی کے بجائے خارجہ والوں کی وکالت میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ بدلے ہوئے حالات نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو مکمل طور پر مقدمات میں اُلجھ کر رکھ دیا ہے۔ ان سے وابستہ پنڈورہ باکس اور آنے والے حالات بتا رہے ہیں کہ وہ ایک مقدمے میں پیش ہوں گے تو دوسرا مقدمہ منتظر ہوگا۔ اس ماحول میں ملکی معیشت بری طرح لڑکھڑانے کی رپورٹیں منظر عام پر آنا شرو ع گئی ہیں۔ ایسے میں مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں چیمبر آف کامرس اور آئی ایس پی آر کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں معیشت بہت پست چلی گئی ہے۔ ملک کی سلامتی کی صورت حال معیشت سے جڑی ہوئی ہے۔ توانائی اور انفرا اسٹرکچر میں ترقی ہوئی ہے مگر جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھ گیا ہے۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں قلیل آمدن معیشت کے لیے اچھی نہیں۔ ملکی قرضے آسمان کو چھُور ہے ہیں۔ آرمی چیف نے سوویت یونین کی شکست وریخت میں معیشت کے کردار کی بات کرتے ہوئے کہا کہ سوویت یونین کے پاس ہتھیار کم نہیں تھے مگر وہ کمزور معیشت کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ آرمی چیف کا قومی معیشت کے حوالے سے اظہار خیال چشم کُشا اور حالات کی حقیقی تصویر ہے۔



جنرل باجوہ کے بعد آصف علی زرداری نے ملک میں مالیاتی ایمر جنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ دوسری اپوزیشن جماعتیں وزیر خزانہ کی تبدیلی یا برطرفی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ موجودہ حکومت معیشت کو زیادہ بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی بالخصوص میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد حکومت معاشی حالات کو مزید بگاڑ کر یہ تاثر دینا چاہتی کہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد ملکی معیشت کا یہ حال ہو گیا ہے۔ وہ ملکی معیشت کو بہتری کی راہ پر ڈال رہے تھے۔ یوں حکومت کا ایجنڈا سیاسی مقاصد اور ردعمل میں معیشت کو بہتر بنانے کے بجائے مزید خراب کرنا ہے۔ شاہد خاقان عباسی بااختیار حکمران کے طور اپنا امیج قائم نہیں کر سکے ان کی سیاسی بقا بھی اسی میں ہے کہ وہ بااختیار کے بجائے شریف خاندان کے تابع مہمل کے طور پر نظر آئیں۔ اسحٰق ڈار ذاتی غصے اور انتقام کا شکار ہیں۔ ایسے میں اسٹاک مارکیٹ نیچے جا رہی ہے۔ قرضوں کی ری شیڈولنگ جیسے معاملات اُلجھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی صورت حال ایک مدت سے خراب چلی آرہی ہے اور یہ ایک منظم منصوبہ تھا جس کا مقصد پاکستان کو معاشی طور پر دیوالیہ کرنا اور اس کی ایٹمی صلاحیت کو بے مقصد اور بوجھ ثابت کرنا تھا۔ پاکستانی عوام کو یہ باور کرانا تھا کہ ان پر یہ ساری معاشی اُفتاد بڑی فوج اور ایٹمی ہتھیار رکھنے کی بنا پر پڑی ہے۔ پاکستان کے معاشی مرکز کراچی پر کنٹرول اسی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ بیرونی منصوبہ سازوں نے اس کا حل بھارت کے ساتھ سیاسی تنازعات کو منجمد کرتے ہوئے بھرپور اقتصادی روابط کی بحالی نکالا تھا۔ امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن ایک بار اسلام آباد میں اس کی منظر کشی مسحور کن انداز میں یوں کر گئی تھیں کہ بھارت سے اقتصادی تعلقات بہتر ہوتے ہی پاکستان کی معیشت راکٹ کی رفتار سے اوپر جائے گی۔ حکومتوں نے اس کا کوئی مستقل حل ڈھونڈنے کے بجائے نے نوٹ چھاپنے اور قرضے لینے کو آسان راستہ سمجھا لیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک عالمی اقتصادی اداروں کی جھولی میں گرتا چلا جاتا گیا اور عالمی اقتصادی ادارے پاکستان پر اپنا ایجنڈا مسلط کر تے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قرض کی قسطوں کے ساتھ اس کے استعمال کا طریقہ بھی بتاتے ہیں۔



پاکستان کو معاشی بحران کے اس گرداب سے نکالنے کی نہ تو عالمی سطح پر کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی اور نہ ملک کے اندر منصوبہ سازوں اور حکومتوں نے اس صورت حال کو کنٹرول کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے بحران روز بروز گہرا ہوتا چلا گیا۔ عالمی اقتصادی اداروں نے ہر مسئلے کا حل ٹیکسوں میں اضافہ کو قرار دیا۔ مشکل یہ ہے کہ ملک میں بااثر طبقہ ٹیکس چوری میں مہارت حاصل کرچکا ہے۔ وہ بڑے سیاسی راہنما جن کی جائداد دنیا کے ہر ملک کے مہنگے علاقوں میں موجود ہیں اپنے ملک میں خود کو کنگال، بے کس ولاچار ظاہر کرکے چند ہزار یا چند لاکھ کا ٹیکس دیتے ہیں۔ جب با اثر اور حکمران کلاس کا یہ رویہ ہوگا تو پھر نیچے کی حالت اس سے چنداں مختلف نہیں ہوسکتی۔ اس طرح ٹیکسوں میں اضافے کا بوجھ اسی متوسط اور غریب طبقے پر پڑتا ہے جو پہلے ہی ٹیکس ادا کرتی ہے۔ یوں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے سے مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے اور مہنگائی کا اثر بھی بااثر طبقات پر نہیں پڑتا۔ پاکستان اس وقت دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے دنیا کی بڑی اور بہترین فوج کا حامل ہے، میزائلوں اور جہازوں کے لحاظ سے بھی بہترین پوزیشن میں ہے۔ یہ جنگی مہمات اور آپریشنوں میں لوہا منوا رہا ہے مگر اس کی معیشت اس دفاعی حجم اور حیثیت کا ساتھ نہیں دے رہی۔ یہ وہ عدم توازن ہے جس کا سوویت یونین کو سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ عہد ماضی کا قصہ بھی نہیں بلکہ دو عشرے پرے کی بات ہے۔ جب دنیا کی ایک بڑی ایٹمی طاقت اور آدھی دنیا کو کنٹرول والے سوویت یونین کی سڑکوں پر لوگ ڈبل روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوتے تھے۔ اس لیے آرمی چیف نے بجا طور پر کہا ہے کہ سلامتی اور معیشت بہم جڑے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے بعد اب معیشت کو جنگی بنیادوں پر بہتر بنانا ناگزیر ہے اور اس عمل کو مالیاتی ایمرجنسی سمیت کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہے۔