یہ لوگ پھر کہاں جائیں؟

295

zc_MFالیکشن کمیشن نے کالعدم جماعت سے تعلق کی بنیاد پر نئی سیاسی جماعت ’’ملی مسلم لیگ‘‘ کو رجسٹر کرنے سے انکار کردیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ملی مسلم لیگ کی طرف سے رجسٹریشن کی درخواست پر وزارت داخلہ سے رائے طلب کی تھی۔ سیکرٹری داخلہ نے اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو جو رپورٹ بھیجی اسے مشتہر تو نہیں کیا گیا البتہ اس کا ایک جملہ اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے وہ یہ کہ سیکرٹری داخلہ نے ملی مسلم لیگ کو رجسٹر کرنے کی مخالفت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ رپورٹ میں اس مخالفت کی وجہ بھی بتائی گئی ہوگی لیکن اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ البتہ الیکشن کمیشن نے اس پر کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کی درخواست مسترد کردی ہے بلکہ اسے بہ یک جنبش قلم کالعدم جماعت بھی قرار دے دیا ہے حالاں کہ وزارت داخلہ کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں بھی ملی مسلم لیگ کے بارے میں کسی صحافی نے سوال کیا تھا جس پر میجر جنرل آصف غفور کا جواب یہ تھا کہ ملی مسلم لیگ کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ اس جواب پر الیکشن کمیشن نے فوراً اپنی ’’ذمے داری‘‘ کا اظہار کردیا۔ کہا جارہا ہے کہ ملی مسلم لیگ عسکری حلقوں نے لانچ کی تھی وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ لوگ جن پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر انہیں معمول کی سماجی، فلاحی اور دینی سرگرمیوں سے روکا جارہا ہے وہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے خود کو الیکشن کمیشن میں رجسٹر کراکے قومی دھارے میں آجائیں اور انتخابات میں حصہ لے کر قومی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر واقعی عسکری حلقوں کی یہ سوچ ہے تو اسے کسی صورت بھی غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلوچستان میں جنگجو اور باغی عناصر کے بارے میں بھی اکثر ایسی ہی پالیسی کا اظہار کیا جاتا ہے اور حکومت کے ذمے داران طرف سے کہا جاتا ہے کہ اگر باغی اور جنگجو عناصر قانون کے آگے سرنڈر کردیں اور پاکستان کی سلامتی اور اس کے آئین سے وفاداری کا حلف اُٹھا کر قومی دھارے میں شامل ہوجائیں تو وہ سیاست میں حصہ لینے کے مجاز ہوں گے اور انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اسی پالیسی کے تحت عطا اللہ مینگل کی پارٹی کو بلوچستان میں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حالاں کہ حکومت سے اس کے سیاسی اختلافات ہیں پچھلے دنوں اسی پالیسی کے تحت متعدد باغی عناصر فوج کے آگے ہتھیار ڈال چکے ہیں اور انہیں اکاموڈیٹ کیا گیا ہے۔



ملی مسلم لیگ کے معاملے میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ لوگ نہ دہشت گرد ہیں نہ باغی ہیں نہ جنگجو اور شدت پسند ہیں یہ لوگ سچے اور کھرے محب وطن پاکستانی ہیں۔ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر قومی زندگی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ان پر اگر کوئی الزام ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ہیں اور کشمیری بھائیوں کو بھارت کی غلامی سے آزاد کرانا چاہتے ہیں اور ماضی میں کشمیری مجاہدین کی مدد بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف امریکی دہشت گردی کو بھی غلط سمجھتے ہیں اور اس پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ ناقابل معافی ’’جرائم‘‘ ہیں جن کی بنیاد پر بھارت اور امریکا ان کے دشمن ہیں اور امریکا نے ان کی دینی تنظیم جماعۃ الدعوۃ اور فلاحی ادارے ’’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘‘ کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ اقوام متحدہ امریکا کی باندی ہے اس نے بھی توثیق کردی ہے۔ جماعۃ الدعوۃ کے قائد حافظ محمد سعید کو بھارت اور امریکا کے دباؤ پر نظر بند کردیا گیا ہے ان کے خلاف کوئی الزام نہیں اس کے باوجود حکومت انہیں رہا کرنے کی جسارت نہیں کرسکتی کہ اس طرح امریکا اور بھارت اس سے ناراض ہوجائیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ حافظ سعید یا ان کی جماعت سے نظریاتی تعلق رکھتے ہیں کیا انہیں پاکستان میں شہری حقوق حاصل نہیں ہیں۔ کیا وہ قومی دھارے میں شامل نہیں ہوسکتے، کیا وہ اپنی سیاسی جماعت نہیں بناسکتے، کیا وہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے معمول کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ آخر وہ کون سا قانون ہے جو انہیں سیاسی سرگرمیوں سے روکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ملی مسلم لیگ کے لوگ ایک زمانے میں مسلم لیگ (ن) کے ہی حامی اور اس کے ووٹرز تھے۔ میاں محمد شریف، حافظ محمد سعید اور ان کے رفقا کو جاتی امرا بلا کر ان سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ جماعۃ الدعوۃ کے ایک رہنما اور حافظ سعید کے ساتھی مولانا امیر حمزہ نے لکھا ہے کہ وہ خود اس مشاورت میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان لوگوں کی دوری اس وقت پیدا ہوئی جب میاں نواز شریف کی حکومت نے بھارت نواز پالیسی اپنالی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ دوستی کا راگ الاپا جانے لگا۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن کے معاملے میں بھی نواز شریف نے چپ سادھے رکھی اور بھارت کو خوش کرنے کے لیے حافظ سعید کو نظر بند کردیا گیا۔ اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں تو ان کی رہائی مشکل نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں ملی مسلم لیگ نے (ن) لیگ کی امیدوار بیگم کلثوم نواز کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا جس نے پارٹی کی رجسٹریشن نہ ہونے کے سبب اگرچہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا تھا لیکن سب کو معلوم تھا کہ یہ ملی مسلم لیگ کا امیدوار ہے اور اس نے قابل ذکر ووٹ بھی حاصل کیے تھے۔ بے شک نواز شریف نااہل ہوگئے ہیں لیکن حکومت تو مسلم لیگ (ن) کی ہے۔ وزارت داخلہ بھی اس کی ہے، وہ ملی مسلم لیگ کا وجود کیسے برداشت کرسکتی ہے۔ اس لیے اس کی مخالفانہ رپورٹ پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ملی مسلم لیگ کے سربراہ خالد سیف اللہ نے کہا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو رجسٹریشن پر مجبور کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کریں گے اگر عدالت بھی انہیں انصاف فراہم کرنے سے قاصر رہی تو وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان پر حب الوطن کے جرم میں پاکستان کی سرزمین تنگ کی جارہی ہے۔ وہ پھر کہاں جائیں۔
واقعی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر حکومت ان کے وجود کی نفی کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور انہیں کسی قسم کی سیاسی، سماجی، مذہبی اور فلاحی سرگرمی کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تو یہ لوگ پھر کہاں جائیں؟