جمہوری دور میں بلدیاتی اداروں کی تباہی

325

zr_M-Anwerملک میں اکثر جمہوری ادوار میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے لیکن رواں دور میں جمہوریت پسندوں نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر بحالت مجبوری ان انتخابات کا انعقاد کیا تو صوبائی حکومتوں نے اپنے حاصل اختیارات کے تحت بلدیاتی قوانین میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ مجموعی طور پر لوکل گورنمنٹ سسٹم ادھورا رہ گیا۔ خصوصاً سندھ میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت بلدیاتی منتخب قیادت کے اختیارات اور بلدیاتی اداروں کا دائرہ کار کم کردیا گیا۔ اس طرح خود مختار اداروں کے گلے میں ایسی ہڈی پھنسا دی گئی ’’جو نگل بھی نہ سکے اور اگل بھی نہ سکے‘‘۔
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ میئر یا منتخب کونسل بالکل ہی بے اختیار ہے۔ اب بھی ان اداروں کو اپنے دائرے کا رمیں وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو ماضی میں تھے۔ اب بھی میئر کراچی، ڈی ایم سی اور ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین کی مرضی کے بغیر کسی افسر کا تقرر ممکن نہیں ہے۔ حال ہی میں بلدیہ کراچی میں ہوچکا ہے جہاں میٹروپولیٹن کمشنر کی حیثیت سے متعین کیے گئے ڈاکٹر جمیل میندور کی تعیناتی کا حکم میئر وسیم اختر کے اعتراض پر واپس لے لیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ مختلف الزامات پر جن افسران کو صوبائی حکومت نے معطل کیا ان سے ’’آف دی ریکارڈ نہ صرف کام لیا جارہا ہے بلکہ انہیں مختلف اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کے ساتھ مشاورت کی اجازت بھی ہے۔ دلچسپ امر تو یہ بھی ہے کہ غیر قانونی طور پر خدمات انجام دینے والے افسران کے بارے میں حکومت کو علم ہونے کے باوجود وہ ان کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیتی۔



حکومت نے موجودہ بلدیات دور میں پہلی بار کراچی سمیت سندھ بھر کے بلدیاتی اداروں سے صفائی ستھرائی کی ذمے داری واپس لیکر خود سنبھال لی ہے۔ کچرا اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے کے لیے سندھ سولڈو یسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) قائم کرکے اسے بلدیات کی اہم اور بنیادی ذمے داری دیدی گئی۔ لیکن اس ادارے کو تین سال گزرنے کے باوجود اس کے مقاصد کے مطابق نہیں چلایا جاسکا۔ جس کی وجہ صرف اور صرف ’’کرپشن‘‘ ہی نظر آتی ہے۔ اس ادارے کا ایم ڈی کسی قابل تجربہ کار افسر کو بنانے کے بجائے بلدیہ عظمیٰ ناکام افسر کو بنادیا گیا جسے یہ بھی نہیں معلوم کہ شہر کے ہسپتالوں اور صنعتوں سے یومیہ کتنی مقدار میں کچرا نکلتا ہے۔ مذکورہ افسر نے شہری حکومت کے دور میں فیڈرل بھی ایریا میں واقع بلدیہ عظمیٰ کے ’’المرکز اسلامی‘‘ کو سینما میں تبدیل کرنے کی تحریری منظوری دیدی تھی۔ ایک غیر مسلم افسر سے جو خدشات لاحق تھے اس نے ویسے ہی کردکھایا۔
بات کرتے ہیں میئر وسیم اختر کی جنہوں نے حال ہی میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’محکمہ فائر برگیڈ کے افسران انتہائی کرپٹ ہوچکے ہیں، جب کہ فائر برگیڈ، سٹی وارڈن اور چارجڈ پارکنگ میں کرپٹ افسران کا راج ہے‘‘ ان کا کہنا تھا کہ محکموں سے کرپٹ افسران اور مافیاز کو ختم کرکے ہی دم لیں گے۔ میئر صاحب یہ نہیں بتا سکے کہ کب تک وہ ایسا کردکھائیں گے۔ کیوں کہ فائربرگیڈ، اور سٹی وارڈن سمیت میونسپل سروسز کے محکمے کا اصل ذمے دار سینئر ڈائریکٹر تو ان کا چہیتا افسر ہے جو معطل ہونے کے باوجود ان کی ’’ناک کا بال‘‘ بنا ہوا ہے۔ جس نے پوری بلدیہ عظمٰی کو گزشتہ دس سال سے تباہ کر رکھا ہے۔ مگر کیا کہا جائے عوامی نمائندوں کو جس کے بارے میں یہ کہا کرتے ہیں کہ: ’’اس افسر سے زیادہ قابل اور باصلاحیت‘‘ کوئی دوسرا بلدیہ کراچی میں موجود ہی نہیں ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ میں اب صرف اسی افسر کا تقرر ہوسکتا ہے جو ماہانہ سیکڑوں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے دے سکتا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کے ایم سی میں چار اہم عہدوں یعنی میٹروپولیٹن کمشنر، فنانشل ایڈوائرز، سینئر ڈائریکٹر فوڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اور ڈائریکٹرمیونسپل پبلک ہیلتھ و ویکٹر کنٹرول کی ذمے داریاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر اصغر عباس کو دی ہوئیں ہیں۔ اسی طرح محکمہ انجینئرنگ و ٹیکنیکل سروس کے ایک انجینئر طہ سے بھی چار اہم عہدوں پر بیک وقت کام لیا جارہا ہے۔



’’کے ایم سی میں کرپٹ مافیا کا راج ہے‘‘۔ وسیم اختر نے یہ کوئی انوکھی بات نہیں کی۔ انوکھی بات تو یہ ہوگی کہ جب کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ فائربرگیڈ اور دیگر محکموں کے اصل ذمے داروں کو نہیں پکڑا جائے گا۔
بلدیہ عظمیٰ کے کم و بیش ایک درجن افسران ایسے ہیں جو نہ صرف قابل ہیں بلکہ انتہائی باصلاحیت بھی ہیں ان میں کمزوری اگر کوئی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ کسی اپنے سے بڑے افسر کی ناجائز بات نہیں سن سکتے اور نہ ہی ماہانہ بھتا دے سکتے ہیں۔ وہ کام کرنا چاہتے ہیں پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ مگر انہیں ایسے کام کرنے کے مواقعے ان دنوں کے ایم سی میں موجود نہیں ہیں۔
کے ایم سی کے صرف محکمہ فائربرگیڈ، سٹی وارڈن اور میونسپل سروسز کی صورت حال ہی خراب نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ محکمہ ایچ آر ایم، محکمہ فنانس، محکمہ کلچر اسپورٹس وریکریشن، محکمہ لینڈ، محکمہ اینٹی انکروچمنٹ، محکمہ انجینئرنگ، محکمہ انٹر پرائزز و انویسٹمنٹ اور محکمہ اسٹیٹ کی حالت بھی تباہ و برباد ہے۔ ان محکموں میں صرف وہ کام ہوتا ہے جن پر ’’اوپر کی آمدنی‘‘ کا آسرا ہو۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی مجموعی صورت حال بہتر ہوتی تو وہ نظر آتی کیوں کہ یہ 27ارب روپے سے چلنے والا ادارہ ہے۔ لیکن جہاں کا سب سے اہم ڈپارٹمنٹ فائر برگیڈ جو آٹھ سال پہلے تک 46 فائرٹینڈرز پر مشتمل تھا اب صرف آٹھ فائر ٹینڈرز والا محکمہ بن چکا ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جس کے لیے ہر سال 54 کروڑ روپے صرف فائر ٹینڈرز کی مرمت کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔ کوئی اگر کراچی سے مخلص منتخب شخصیت ہوتی تو وہ صرف باتیں نہیں بلکہ وہ گزشتہ ایک سال میں کام کرکے دکھا دیتی۔ گاڑیوں سمیت دیگر دیکھ بھال پر خرچ کیے جانے والے اربوں روپے کے اخراجات کا حساب لیتی۔ مگر ایسا نہیں ہے اور رواں دور میں اس کی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔ کیوں کہ جن کرپٹ افسران کا ان دنوں کے ایم سی میں راج ہے ان میں سے چھ افسران کو انکوائری کے بعد سابق ایڈمنسٹریٹر برگیڈئر عبدالحق نے برطرف کردیا تھا۔ تاہم ایم کیو ایم کے ایک مشیر بلدیات نے حاصل اختیارات کے تحت ان تمام کو بحال کردیا تھا۔ آج وہ مشیر بلدیات ہم سب کے درمیان ایک نئے روپ میں چیختے چلاتے اور اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے نظر آتا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کا آج کا دور غیر منتخب دور کہیں زیادہ خراب ہے۔