رومانیت اور حقیقت

2067

zc_Shah-Nawaz-Farooqi-3کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان کی نجی شعبے میں کام کرنے والی جامعات کے طلبہ کن موضوعات پر گفتگو کررہے ہیں اور یہ گفتگوئیں انہیں کن نتائج تک پہنچا رہی ہیں؟۔ اگر آپ ان گفتگوؤں سے واقف ہیں تو ہمارا یہ کالم آپ کے لیے محض ایک یاد دہانی ہے۔ اور اگر آپ بہت سے لوگوں کی طرح سوئے پڑے ہیں تو یہ کالم یقیناًآپ کے لیے ایک انکشاف بلکہ ایک چھوٹا موٹا زلزلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی پرائیویٹ جامعات میں کیا پڑھایا جارہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں۔
لاہور کی ایک مشہور پرائیویٹ یونیورسٹی کے علم سیاسیاست اور تاریخ کے طلبہ نے روایت بمقابلہ جدیدیت کے موضوع کے تحت پاکستان اور سیاسی جدیدیت پر سیر حاصل بحث کی اور طلبہ کی ’’اکثریت‘‘ اس نتیجے پر پہنچی کہ پاکستان میں قوم پرستی کا جذبہ پان اسلام ازم کی لہر سے دب جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی و سماجی کلچر ہم آہنگ نہیں ہے اور پان اسلام ازم اور قوم پرستی کی لہریں معاشرے اور ریاست کو دو مختلف سمتوں میں دھکیل رہی ہیں۔ یہ تو تجزیہ ہوا۔ طلبہ کی اکثریت نے ’’مسئلے ‘‘کا ’’حل‘‘ بتاتے ہوئے کہا کہ ہمیں ’’ملت اسلامیہ‘‘ کی فکر کرنے کے بجائے قومی تشخص National Identity پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ کیوں کہ ملت اسلامیہ اپنے حجم، سیاست اور سماجی و ثقافتی اختلافات کی وجہ سے ہمارے قابو میں نہیں یا ہمارے لیے ’’Manageable‘‘ نہیں۔ طلبہ اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ پاکستان کے لیے بہتر ہے کہ وہ پان اسلام ازم یا ملت و امت پرستی کے ’’رومانس‘‘ کو خدا حافظ کہہ دے اور اپنے ’’قومی مفادات‘‘ کو ملت اور امت کے تصور پر ترجیح دے۔ طلبہ نے بحث کے دوران قومی ریاست یا Nation State اور پان اسلام ازم کو ایک دوسرے کی ضد کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے قومی ریاست کو جدیدیت اور پان اسلام ازم کو روایت کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ روایت پرستی ’’ترقی‘‘ کی راہ روکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ طلبہ کی گفتگو کے یہ نکات ہمیں کسی خفیہ ادارے نے مہیا نہیں کیے ہیں بلکہ طلبہ کے استاد طاہر کامران نے دی نیوز کراچی میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ کالم مذکورہ بالا اخبار میں یکم اکتوبر سن 2017 کو شائع ہوا ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ زیر بحث طلبہ کے استاد طاہر کامران ایک سیکولر اور لبرل دانش ور ہیں۔ اس سے قبل کہ ہم اصل موضوع پر آئیں آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ نجی جامعات کے اساتذہ کی عظیم اکثریت سیکولر اور لبرل اساتذہ پر مشتمل ہے اور ملک میں اعلیٰ تعلیم کی سطح پر طلبہ کی 60 فی صد تعداد نجی جامعات کا حصہ بن چکی ہے۔ آئیے نعرہ لگاتے ہیں۔ اسلام زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد۔ لیکن چھوڑیے ان باتوں میں کیا رکھا ہے۔



تجزیہ کیا جائے تو زیر بحث طلبہ کی اکثریت نے پان اسلام ازم یا روایت کو نہیں خود اسلام کو اُٹھا کر ایک طرف پھینک دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملت یا امت کا تصور کسی مسلمان مفکر کی ایجاد نہیں۔ امت کا تصور قرآن کا تصور ہے۔ امت کا تصور احادیث مبارکہ کا تصور ہے۔ قرآن مسلمانوں کو امت وسط کہتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو امت قرار دیا ہے۔ آپؐ نے مسلمانوں کے لیے نہیں امت کے لیے دعائیں کی ہیں۔ آپؐ امت کے غم میں روئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ہے کہ مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہیں۔ جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم اس کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ امت کی ’’حقیقت‘‘ طلبہ کے نزدیک ایک ’’رومانوی شے‘‘ قرار پائی اور قومی ریاست کے پست مفادات انہیں ’’حقیقت‘‘ محسوس ہوئے اسی لیے انہوں نے فرمایا کہ ہمیں ’’رومانس‘‘ کو ترک کردینا چاہیے اور ’’حقیقت‘‘ سے چمٹ جانا چاہیے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ رومانس کا مفہوم کیا ہے؟
پست ترین سطح پر رومانس کا مطلب ہے ’’خیالی پلاؤ پکانا‘‘۔ بلند ترین سطح پر رومانس کا مطلب ہے مثالیت پسندی یعنی Idealism۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مثالیت پسندی یا Idealism نے انسان کو انسان بنایا ہے۔ انسان کو بڑے مقاصد سے مسلک کیا ہے۔ اس کو خود غرضی ترک کرنے پر مجبور کیا ہے۔ انسان دنیا کی محبت میں مرا جاتا ہے۔ مذہب کہتا ہے۔ دنیا عارضی شے ہے۔ حقیر شے ہے۔ خدا اور اس کی خلق ہوئی آخرت دائمی اور قیمتی شے ہے۔ چناں چہ تو عارضی چیزوں کے لیے زندہ نہ رہ، دائمی چیزوں سے محبت کر اور دین کے حصول کی جدوجہد کر، مذہب یہ نہ کرے تو دنیا کے سارے انسان دنیا کے کتے بن جائیں۔ ان کا مرتبہ خنزیروں سے بھی کم تر ہوجائے۔ پاکستان کا مطالبہ ایک خواب تھا۔ ایک رومان تھا۔ ایک مثالیت پسندی تھی۔ ایک Idealism تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معلوم تاریخ میں کبھی انسانوں نے مذہب کی بنیاد پر ریاست کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ جس وقت یہ مطالبہ سامنے آیا۔ مسلمان غلام تھے۔ ان پر انگریز مسلط تھے اور انہیں ہندوؤں کی مزاحمت بھی درپیش تھی جو اکثریت میں تھے۔ ان حالات میں ’’حقیقت پسندی‘‘ تو یہ تھی کہ مسلمان علیحدہ ریاست کے بارے میں سوچنے کی بھی جرأت نہ کریں۔ لیکن مسلمانوں کے مذہب، تہذیب اور تاریخ میں موجود رومانس نے ان کے مذہب، ان کی تہذیب اور ان کی تاریخ میں موجود Idealism نے مسلمانوں کی روح یا ان کی نفسیات اور ان کے ذہن کو آزادی عطا کی چناں چہ مسلمان ایک آزاد ریاست کا خواب دیکھ سکے اور ان کے آئیڈیل ازم نے انہیں اس سلسلے میں جدوجہد کرنے پر مائل کیا۔ مثالیت پسندی یا آئیڈیل ازم کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ تحریک پاکستان میں بھارت کی اقلیتی ریاستوں کے مسلمانوں کی جدوجہد سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان بنگال، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں بن رہا تھا اور یوپی، بہار، راجستھان اور آندھرا پردیش کے مسلمان قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کررہے تھے حالاں کہ انہیں قیام پاکستان سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں تھا۔ اگر اقلیتی صوبوں کے مسلمان جدوجہد نہ کرتے تو پاکستان کا وجود میں آنا ناممکن تھا۔



اس لیے کہ پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کی قیادت قیام پاکستان سے ایک سال پہلے یعنی 1946ء تک تحریک پاکستان کا حصہ نہ تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو پاکستان پان اسلام ازم یا Idealism کا حاصل ہے اس پاکستان کی اعلیٰ درسگاہوں میں پان اسلام ازم کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ لیکن کیا حقیقت حقیقت کرنے والوں کو اس لفظ کے ’’مضمرات‘‘ کا اندازہ ہے۔ ’’حقیقت‘‘ تو یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے بڑا ظلم کیا چناں چہ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کے ساتھ ساز باز کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنالیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچستان کے بعض رہنما مغربی ممالک میں بیٹھے ہیں اور وہ امریکا، یورپ اور بھارت کی سازش کے تحت بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ تو کیا ہمیں گمراہ لوگوں کی حقیقت کے آگے ہتھیار ڈال دینے چاہئیں۔ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین بھی امریکا، برطانیہ اور بھارت کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں اور ’’حقیقت‘‘ یہ ہے کہ وہ سندھ کے شہری علاقوں کو آزاد کرانے کی مہم پر روانہ ہوچکے ہیں۔ تو کیا ہمیں الطاف حسین کی تخلیق کردہ ’’حقیقت‘‘ کے آگے ہتھیار ڈال دینے چاہئیں؟ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ بھارت کی اس سے زیادہ ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ تو کیا پاکستان کو ’’رومانس‘‘ سے نجات حاصل کرنے کا مشورہ دینے والے بھارت کو بھی یہ صلاح دیں گے کہ وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ایک درجن ریاستوں کو آزاد ملک بننے دے۔ خیر ریاستیں تو بڑی چیز ہیں آدمی جب ’’حقیقت پسند‘‘ ہوتا ہے تو باپ، بیٹے اور شوہر اور بیوی کا تعلق بھی Un-mangeable ہوجاتا ہے۔ اس گفتگو کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اگر امت اور ملت کے تصورات میں کوئی ’’تقدیس‘‘ نہیں تو پھر ’’قومی ریاست‘‘ کو کیوں ’’مقدس‘‘ سمجھا جائے اور کیوں نہ موقع ملتے ہی امت اور ملت کی طرح ’’قوم‘‘ اور ’’قومی ریاست‘‘ سے بھی جان چھڑا لی جائے۔ جن لوگوں کو امت یا ملت Manageable نہیں لگ رہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کی پچاسوں ریاستیں بھی ’’Manage‘‘ نہیں ہورہیں۔ اس کا ایک معمولی ثبوت ملک کا سب سے بڑا، سب سے جدید اور سب سے امیر شہر کراچی ہے جہاں حکمران نہ شہر کو صاف ستھرا اور وافر پانی فراہم کر پارہے ہیں، نہ ان سے کراچی کا ٹریفک ’’Mange‘‘ ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ حکمران کراچی کی گلیوں اور سڑکوں سے کچرا تک نہیں اٹھا رہے ہیں۔ تو کیا اہل کراچی ان ’’حقائق‘‘ کو دیکھتے ہوئے پاکستان سے آزادی کا نعرہ لگادیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو کھانسی ہوجاتی ہے اور وہ کئی کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک ’’Manage‘‘ نہیں ہوپاتی۔ مگر اس کے باوجود ہم مریض کو ’’خداحافظ‘‘ نہیں کہہ دیتے۔ یہاں تک کہ سرطان کی آخری اسٹیج پر بھی اپنے پیاروں کا علاج کروایا جاتا ہے اور بسا اوقات علاج کے لیے گھر بار تک فروخت ہوجاتا ہے۔



یہ سب محبت عرف رومانس عرف Idealism ہی کا حاصل ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک ’’حقیقت‘‘ یہ سامنے آئی ہے کہ جن لوگوں نے Idealism سے قائم ہونے والی ریاست میں بیٹھ کر امت اور ملت کو گڈ بائے کہا ہے ان کو چوراہے پر کھڑا کرکے دس دس جوتے لگانے چاہئیں مگر ہمارا Idealism کہہ رہا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ طلبہ کا استاد گمراہ ہوگا طلبہ تو ہمارے بچے ہیں۔ انہیں آج نہیں تو کل رومانس، خواب یا Idealism کی اہمیت معلوم ہوجائے گی۔
زیر بحث موضوع کا ایک گوشہ یہ ہے کہ ظلم صرف طلبہ نے نہیں کیا بلکہ ان کے استاد طاہر کامران نے ظلم پر ظلم کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پان اسلام ازم جدیدیت کا حامل ہے۔ ان کے بقول 19 ویں صدی میں مسلم سلطنتوں کے زوال نے پان اسلام ازم کو تخلیق کیا۔ ایک امریکی مورخ سِمِل کے بقول روسی سلطنت کی ان پان سلاوِک پالیسیوں نے جو انہوں نے سلطنت عثمانیہ میں رہنے والے عیسائیوں کے لیے اختیار کیں مسلمانوں کو پان اسلام ازم کا راستہ دکھایا۔ جو دین تمام مسلمانوں کو ایک امت اور تمام انسانوں کو ایک کنبہ کہتا ہو اور جس نے کبھی نسل، جغرافیے اور زبان کو تشخص کی بنیاد نہ بنایا ہو اس کے ماننے والوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ وحدت اور جغرافیے سے بلند ہونے کا تصور کسی سے ’’ادھار‘‘ لیں گے ایک بہت ہی بڑا ظلم ہے۔ اسلام نے اپنے ظہور کے ساتھ ہی ایک آفاقیت اور بین الاقوامیت مسلمانوں کے مزاج کا حصہ بنا دی تھی۔ چناں چہ قبائلیت میں ڈوبا ہوا عرب معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے پان اسلام ازم کا مظہر بن گیا تھا۔ یہ پان اسلام ازم ہی تھا جس نے محمد بن قاسم کو سن 712 میں مسلمانوں کی مدد کے لیے سندھ میں راجا داہر کے خلاف لاکھڑا کیا۔ یہ پان اسلام ازم ہی تھا جس کے تحت 11 ویں ہندوستان کے مسلم بادشاہ التمش کو تاتاریوں کی مزاحمت کرنے والے جلال الدین خوازم شاہ کی مالی مدد پر مائل کیا۔ بلاشبہ اس دور میں خلیفہ بغداد نے جلال الدین کی مدد نہیں کی مگر بغداد کے عوام کے دل جلال الدین کے ساتھ دھڑک رہے تھے اور اس کے لشکر میں دور دراز کے علاقوں کے مسلمان شامل تھے۔ کیا آپ کو یہ باتیں پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟۔ اور آئندہ دس پندرہ سال کے بعد ہمارا ملک کیسے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگا؟ خیر ان باتوں کو چھوڑیے آئیے لمبی تان کر سوتے ہیں۔ مگر سونے سے پہلے ایک نعرہ۔ اسلام زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔