اگلے ہی دن جواب الجواب میں میجر جنرل آصف غفور نے پھر ایک پریس کانفرنس کرڈالی جس میں انہوں نے کہا کہ میں نے جو کہا میں اس پر قائم ہوں۔ جہاں تک ترجمان کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے عالمی ساکھ متاثر ہونے کا خطرہ ہے تو کیا معیشت کے حوالے سے پاکستان کی ایسی ساکھ ہے جو متاثر ہوسکتی ہے۔ کس کو نہیں پتا کہ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے ۔ گزشتہ 4سال میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے قرض لینے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے کہاں گئے ، ان کا استعمال کہاں ہوا اور ان سے ملک اور عوام کو کیا فائدہ پہنچا، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ۔ حال یہ ہے کہ قرضوں کا سود چکانے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے مزید قرضے چڑھائے جارہے ہیں اور جب ان کی ادائیگی کا وقت آئے گا تو قرض لینے والے جانے کہاں ہوں گے۔ عوام کی گردن میں پھندا کستا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سود خور ادارے اگر مزید قرضے دینے کا وعدہ کرلیں تو خوشی سے بغلیں بجائی جاتی ہیں کہ یہ ہماری معیشت پر اعتبار کا ثبوت ہے۔ بہرحال اب فوج اور حکومت میں مناظرے کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے جس سے اس تاثر کی بھی نفی ہوتی ہے کہ فوج اور سول حکومت ایک ’’پیج‘‘ پر ہیں ۔ فوج کو معیشت پر اپنی تشویش کا اظہار کرنا ہی ہے تو اس کے لیے پریس کانفرنسیں کرنا مناسب طریقہ نہیں ۔