ٹرمپ: تمام آزمائشوں میں ناکام امریکی صدر

239

سمیع اللہ ملک
ان دنوں امریکی دانشوروں اور مبصروں کے درمیان ’ریاستی امورکی انجام دہی اور ریاست کو طاقت عطا کرنے کے لیے صدر کے عہدے کی اہمیت‘ پر طویل بحث جاری ہے۔ وہ گروہ جو کہتے ہیں کہ صدارت سے کوئی فرق نہیں پڑتا، درست نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ امریکی آئین چیف ایگزیکٹو پر بہت سی پابندیاں لگاتا ہے۔ کانگریس امریکی صدر کو قانون سازی اور مالیاتی امور کے اختیارات نہیں دیتی۔ اس کے علاوہ بائیسویں ترمیم کسی شخص کو 2 سے زیادہ مرتبہ صدر کے منصب پر فائز ہونے کا اختیار بھی نہیں دیتی۔امریکی لچک دار وفاقی طرزِ حکومت میں 50 ریاستیں اپنے آئینی استحقاق اور وفاقی حکومت کی حدود کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ اگر ایگزیکٹو برانچ کا اضافہ بھی شامل کرلیں، جس میں ڈپارٹمنٹس، ایجنسیاں اور نیم خود مختار تنظیمیں اکثر صدر کے احکام نظر انداز کرتی ہیں۔ بسا اوقات حکم عدولی کا تاثر بھی ملتا ہے۔ ان آئینی اور اداراتی حقائق کو یکجا کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ صدرکے عہدے کی اہمیت نسبتاً ًکم ہوچکی ہے۔

a1-1
ٹرمپ کی کمزور صدارت کی ایک وجہ خودٹرمپ کا مخصوص کردار بھی ہے اور دوسرے ان کے اہم معاونین مثلاً وزیر دفاع جیمز میٹس، قومی سلامتی کے مشیر، وزیر خارجہ، سی آئی اے ڈائریکٹر، چیئرمین آف جوائنٹ چیفس اور اقوام متحدہ میں سفیر کی کارکردگی۔ بارہا سناگیا کہ ان افسران کی مہارت اور تجربہ تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے ٹرمپ کی کوتاہیوں سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کردے گالیکن اس کے برعکس خود امریکی وزیرخارجہ ٹلرسن کے حوالے سے خبریں سامنے آئی ہیں کہ انہوں نے ٹرمپ کوبے وقوف قراردے دیاہے جس کے بعدافواہ گرم ہے کہ ان سے یہ عہدہ واپس لے لیاجائے گا۔
بہت سے واقعات یاد دلاتے ہیں کہ صدر کا عہدہ بہت ضروری بھی ہے۔ شمالی کوریا کے تنازع اور امریکی ریاست ورجینیا میں نسلی فسادات کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحرانوں کے مواقع پر امریکیوںکو احساس ہوا کہ ڈپارٹمنٹس ایک طرف، ہمیں حقیقی قیادت کی ضرورت ہے لیکن ٹرمپ دونوں مواقع پر ناکام ثابت ہوئے۔



شمالی کوریا کا طویل عرصے سلگنے والا بحران اس وقت دھماکا خیز ہوچکا ہے، جب پیانگ یانگ نے بین البراعظمی میزائل کا تازہ ترین تجربہ کیا۔ اس دوران یہ خبر بھی آئی کہ شمالی کوریا نے چھوٹے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت بھی حاصل کرلی ہے۔ میزائل میں نصب کرنے کے لیے چھوٹے حجم کا جوہری ہتھیار درکار ہوتا ہے۔ ٹرمپ کا بھڑکیلا ٹوئٹ شمالی کوریا کے اشتعال انگیز پروپیگنڈے کے مقابلے میں میڈیا کی زینت تو بن گیا لیکن بحران کے موقع پر ٹرمپ کسی طور امریکی قیادت کرنے والے کمانڈر اِن چیف دکھائی نہ دیے۔ ان کے پاس شمالی کوریا کے حوالے سے کوئی منصوبہ یا حکمت عملی نہ تھی، جسے نافذ کرنے کی وہ اپنی حکومت کو ہدایت کرتے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران انتظامیہ کی نیشنل سیکورٹی ٹیم نے پیانگ یانگ سے نمٹنے کے لیے خاموشی سے ایک حکمت عملی وضع کی ہے جس میں معمول کے مطابق معاشی اور فوجی دباؤ کا ادغام اور بحران کے حل کی سفارتی کوششوں کی طرف میلان دکھائی دیتا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے ایک مضمون میں میٹس اور ٹلرسن نے اس منصوبے کے خد و خال بیان کیے مگر اس حکمت عملی کی تشریح اور نفاذ کے لیے اپنا صدارتی عہدہ استعمال کرنے کے بجائے ٹرمپ جوشیلے نوجوانوں کی طرح سینہ تان کر نعرے بازی کرتے دکھائی دیے۔ اس کھلنڈرے پن نے میٹس، مک ماسٹر، پومپیو، ڈنفورڈ اور ٹلرسن کی تمام اچھی کوششوں پر پانی پھیر دیااوروائٹ ہاوس میں کوئی عہدہ رکھے بغیر ٹلرسن پر تنقید کرنے والے سبستین گورکا نے مزید ابہام پیدا کردیا۔
ٹرمپ کی بڑھک دار بیان بازی عالمی سامعین کو متاثر کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ ان کے سامنے شمالی کوریا کو ایک طاقتور پیغام بھیجنے کا چیلنج اور چین کی بھی سرزنش کرنا تھی کہ وہ پیانگ یانگ کو سہار ا دینے اور عالمی برادری کے ساتھ چلنے کا دہرا کھیل کھیلنے سے گریز کرے ، وہ ایساپیغام ہونا چاہیے تھا کہ یہ دونوں ریاستیں مشتعل بھی نہ ہوں۔ میٹس، مک ماسٹر، پومپیو، ڈنفورڈ اور ٹلرسن نے اپنا کردار مہارت سے ادا کرتے ہوئے مناسب پیغامات پہنچائے لیکن صدر کے میگافون نے ان کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔ ٹرمپ کی بے کار بیان بازی کے بعد شمالی کوریا کو مزید شہ مل گئی، چین پرسکون ہوکر ایک طرف ہوگیا مگر دوسری طرف جاپان اور جنوبی کوریا کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ صدر کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ پالیسی سازی کے لیے ٹوئٹر کے بجائے سچویشن روم کا رخ کرے۔



ورجینیا کے علاقے چارلوٹس ولے میں نسلی فساد نے ٹرمپ کی کمزور ی مزید آشکار کردی۔ امریکا کو ایک صدر کی ضرورت تھی، جو مکمل اخلاقی بنیادوں پر نسل پرستی اور سفید فاموں کی بالا دستی کے تصور کی مذمت کرتے ہوئے قومی ہم آہنگی اور اتحاد کی بات کرتا۔سنجیدگی کی روایت کااعادہ ہوتالیکن وہ حساب برابر کرنے کے چکر میں پڑ گئے اور انہوں نے ان سفید فام نسل پرستوں کی کسی طور مذمت نہ کی جنہوں نے یہ بحران شروع کیا تھا۔ یہ وہی سفید فام نسل پرست ہیں جنہیں ٹرمپ اپنی سیاسی بنیاد قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کی طرف سے تاخیر سے آنے والے غیر واضح پیغام نے قوم میں تقسیم کی لکیر کو مزید گہرا کردیا۔ بعد میں آنے والا بیان بہتر تھا لیکن اس میں بھی تذبذب کا تاثر موجود تھا اور پھر قومی رویے پر اثر انداز ہونے کے لیے اس نے بہت دیر کردی تھی۔
ورجینیا کے واقعات کی ذمے داری بہت حد تک ان لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے، جو اب تک ٹرمپ کی پالیسیوں اور مجموعی سوچ کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر فرض کریں چارلوٹس ولے میں سفید فام نسل پرستوں کے بجائے مذہبی انتہا پسندوں کا مارچ ہوتا، جو عقیدے کی بنیاد پر جنگ کے نعرے لگارہے ہوتے یا امریکا میں شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ کررہے ہوتے اور ان میں سے ایک جنگجو تیز رفتار کار ہجوم پر چڑھا دیتا، جس میں کچھ ہلاکتیں ہوجاتیں اور بہت سے افراد زخمی ہوجاتے تو کیا پھر بھی امریکی صدر ویسا ہی بیان جاری کرتے ہوئے کہتے کہ ہاں، اس واقعے کے کئی ایک پہلو ہوسکتے ہیں؟ نیز یہ کہ یہ کسی کا نفسیاتی مسئلہ ہے، دہشت گردی نہیں؟
اگر وہ ایسی کوئی بھی بات کرتے تو یقیناً آپ کو اس پر غصہ آتا اور آپ مشتعل ہونے میں حق بجانب ہوتے۔ اوباما کی ایک ناکامی یہ تھی کہ انھوں نے دہشت گردی کو مذہب سے منسلک کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ٹرمپ کی ناکامی یہ ہے کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے سفید فام نسل پرستوں کی وارداتوں کو تشدد کے زمرے میں رکھنے کے لیے تیار نہیںاور ایسا کرتے ہوئے وہ ان کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ورجینیا کے نسلی فساد نے امریکی قوم کو باور کرادیا کہ وائٹ ہاوس میں ایک باصلاحیت اور باہوش صدر کی ضرورت ہے۔ اب یہ امریکی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کا صدرتمام آزمائشوں میں ناکام ہو چکا ہے۔ ٹرمپ نے کسی بھی طور ایک امریکی صدر کے شایان شان رویہ نہ دکھایا۔ اور اگر ایسا ہی جاری رہا تو یہ عہدہ مسلسل 4 برس تک ایک با اصول اور موثر رہنما سے نہ صرف محروم رہے گابلکہ خود امریکا سمیت عالمی امن کوبھی شدیدخطرات لاحق رہیں گے۔