آئین کی تحت کیا کیا ہورہاہے؟؟

292

LOH

پاک فوج اور وزیر داخلہ کے درمیان معیشت پر مناظرے کے دوران بہت ساری ایسی باتیں ہونے لگی ہیں جن کی زد میں دونوں فریق آرہے ہیں۔ ایک طرف احسن اقبال فوج کے ترجمان پر تنقید کررہے ہیں کہ انہیں معیشت پر بات نہیں کرنی چاہیے اور فوجی ترجمان یہ کہہ رہے ہیں کہ آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں ہوگا۔ یہی بات دونوں فریقوں کو گرفت میں لانے کے لیے کافی ہے۔ پاکستانی فوج نے ملک میں جب بھی اقدامات کیے آئین سے بالا کیے اور پوری طاقت کے ساتھ کیے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف۔۔۔ سب ہی نے آئین سے بالا اقدامات کیے پھر اپنے اقدامات کو اسمبلیوں سے سند جواز بخشنے کے بعد رخصت ہوگئے، اب نامعلوم وجوہات یا پس پردہ محرکات نے فوجی ترجمان کو معیشت اور حکومتی کارکردگی پر بولنے پر مجبور کردیاہے یا کوئی منصوبہ ہے جو ابھی سامنے نہیں آیا لیکن جو بھی ہے آئین سے بالا ہی ہے۔ پاکستانی قوم کاتو سوال یہ ہے کہ ملک میں کون سا کام آئین کے تحت ہورہاہے۔ اگر آپ جمہوری اداروں، حکمرانوں، ارکان پارلیمنٹ اور وی وی آئی پیز کے معاملے کو دیکھ لیں کیا ملک کاآئین ان لوگوں کو عوام سے بالاتر مخلوق قرار دیتا ہے؟؟ ایسا تو نہیں ہے۔ آئین تو ان کو عوام کا خادم بناتا ہے لیکن یہ عوام کے حکمران بلکہ مالک بن جاتے ہیں۔ اب ان حکمرانوں نے سندھ اسمبلی میں اپنی تنخواہوں میں خود ہی تین سو فی صد اضافہ کرلیا اس فیصلے کا اطلاق جولائی 2016ء سے ہوگا۔ اس فیصلے سے خزانے پر ڈھائی کروڑ روپے ماہانہ اضافی بوجھ بڑھ گیا۔ یعنی سالانہ 30 کروڑ روپے۔ حادثاتی موت کی صورت میں بھی لواحقین کو 50 لاکھ روپے فی کس دیے جائیں گے۔ کہنے کو تو یہ اچھی بات ہے کہ جو لوگ عوام کی خدمت میں مصروف ہیں ان کا خیال کیا جانا چاہیے لیکن اتنا بڑا تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں رو روکر بلکہ سیکڑوں مطالبات احتجاج وغیرہ کے بعد زیادہ سے زیادہ دس فی صد اضافہ ہوتا ہے۔ موثر بہ مستقبل نہ کہ ارکان اسمبلی کی طرح موثر بہ ماضی۔ دوسرے یہ کہ جولائی سے اضافے کا فیصلہ ہونے کے بعد بسا اوقات اگلا بجٹ آجاتا ہے۔ سرکاری ملازم کو پیسے بڑھ کر نہیں ملتے۔ اسے دس فی صد بھی فوراً نہیں ملتے یہاں تین سو فی صد گزشتہ سال سے موثر ہوگئے۔۔ اس کے لیے آئین کی چھتری ضرور استعمال کی جاتی ہے لیکن کیا



آئین میں دیے گئے اس اختیار کو صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات کے لیے استعمال کیا جانا ہی آئین کی پاسداری ہے۔ آج کل نا اہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے حوالے سے جو مہم پوری حکومت اور مسلم لیگ ن چلارہی ہے کیا وہ آئین کے تحت ہے۔ آئین نے عدالتوں کے فیصلوں اور عدلیہ کا ایک مقام متعین کیا ہے۔ ناجائز اور مشتبہ دولت رکھنے والوں کے بارے میں بھی آئین نے وضاحت سے فیصلے سنائے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کی رٹ ہے کہ فیصلہ تو عوام کی جے آئی ٹی کرے گی۔ عوامی عدالت فیصلہ کرے گی اگر میاں نواز شریف کی اہلیہ لاہور کا ضمنی انتخاب جیت گئی ہیں تو اس سے میاں صاحب کی نا اہلی کیسے غلط ہوگئی، اسے غلط ثابت کرنا ہے تو عدالتوں میں ہی جانا ہوگا وہیں سے کوئی فیصلہ لائیں ورنہ انتخابات جیتنے کو عدالتی فیصلوں سے بالا قرار دیا گیا تو کل کو الطاف حسین کراچی سے الیکشن لڑ کر جیت گئے تو کیا کہا جائے گا۔ ویسے جس دن وہ فیصلہ کرلیں یہی نظام انہیں بھی لڑنے کی اجازت دے دے گا۔ کالعدم تنظیموں کی طرح وہ بھی حصہ لے لیں گے۔ ہمارے حکمران ٹیکس نہیں دیتے، زرعی ٹیکس تو لگنے ہی نہیں دیتے اور آمدنی ظاہر نہیں کرتے جھوٹے گوشوارے داخل کرتے ہیں اور یہ سب آئین کی چھتری تلے کرتے ہیں۔ کاغذوں پر غریب ترین اور کسی جائداد کے مالک نہیں ہوتے لیکن پجارو، پراڈو اور مرسڈیز کی قطاریں ان کے قافلے میں ہوتی ہیں اور پھر بھی غریب کے غریب!! بات صرف ایم این اے یا وزیر کی نہیں ہے پنجاب اور سندھ میں تو پارٹی لیڈر کا بھائی بھانجا، بھتیجا بھی وی وی آئی پی ہوتا ہے۔ کیا یہ سب آئین کے تحت ہورہا ہے؟ اسی طرح ہمارے سیکیورٹی ادارے خصوصاً پاک فوج کی خفیہ ایجنسیاں جو کچھ کررہی ہیں لوگ گھروں سے غائب کیے جارہے ہیں کسی کو جرم بھی نہیں بتایاجاتا اسے اٹھاکر لے جاتے ہیں یہ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ضرب عضب، آپریشن خیبر ون، خیبر ٹو اور اب رد الفساد۔۔۔ جس کے بارے میں وزیر داخلہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ حکومت پیٹ کاٹ کر ردالفساد کے لیے پیسے دے رہی ہے۔ کیا یہ سارے آپریشن آئین کے ماتحت ہیں۔ ان سب آپریشنوں، لوگوں کو سیکیورٹی قوانین کے نام پر لاپتا کرنا، راؤ انور کے مشتبہ مقابلے کیا یہ سب بھی آئین کے تحت ہیں۔ ایسا تو نہیں ہے۔ پاکستان میں در اصل ابتدا ہی میں گاڑی پٹڑی سے اتر گئی تھی ورنہ کسی میں اتنی جرأت نہ ہوتی کہ اداروں میں تصادم ہوتا۔ نہ فوج سیاست میں آتی نہ سیاست دان فوج پر تنقید کرتے نہ معیشت اور ملک کی بدنامی کے خدشات پیدا ہوتے۔



وزیر داخلہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ رد الفساد کے لیے حکومت پیٹ کاٹ کر پیسے دے رہی ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاسکے کہ پیٹ کس کا کٹ رہا ہے۔ اس میں بھی قوم کا پیٹ کاٹا جاتا ہے۔ کیا حکمرانوں کی تنخواہوں اور مراعات میں سے رقم کاٹ کر رد الفساد کے لیے دی جارہی ہے۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہے۔ اگر ابتدا میں ہی فوج اور سیاست دانوں کو آئین کا احترام سکھادیا جاتا تو پاکستان میں مارشل لاء لگتا نہ وی آئی پی کلچر پروان چڑھتا۔ ہماری نظر میں دونوں ہی شعبے آئین کا اس طرح احترام نہیں کرتے جس طرح اس کا حق ہے۔ ملک کا آئین کہتا ہے کہ قرآن و سنت سپریم لاء ہوں گے۔ لیکن اس آئین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے سود کے حق میں قانون سازی جاری ہے، سود کو تحفظ دیا جاتا ہے، حدود آرڈیننس کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں۔ حال ہی میں قادیانی لابی متحرک ہوئی اور ارکان اسمبلی کے حلف نامے میں تبدیلی کی منظوری بھی ہوگئی۔ وہ تو خیر ہوئی کہ جماعت اسلامی کے ارکان نے فوری طور پر اس ترمیم کو ختم کرنے کے لیے اپنی ترامیم پیش کردیں ورنہ ان ترامیم کی واپسی کا جواز ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد بھی فوج اور سیاست دانوں میں قادیانیوں کے حوالے سے مباحثہ ہوا جو قطعاً غیر ضروری تھا۔ دونوں فریقوں سے گزارش ہے کہ آئین کی بالادستی کا نام لینے کے ساتھ ساتھ آئین کا مطالعہ بھی کریں یہ آئین پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا حکم دیتا ہے اس پر عمل کیا جائے۔ ورنہ صرف اور بیانات تو بہت لوگ دیتے ہیں۔