آئین کی بے بسی!؟

250

Nasirسابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا مگر اس فیصلے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ (ن) لیگ نے سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فیصلے کو مسترد کردیا۔ شیخ رشید نے اسے جمہوریت کی قبر قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے کہاں جس کی قبر کھودی جائے اور پھر دفن کیا جائے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا کہ جمہوریت خانم تو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی طرح اتنی بدنصیب ہے جسے دفن کے لیے دوگز زمین بھی نصیب نہ ہوئی۔ تجہیز و تکفین کا بھی اہتمام نہ کیا گیا۔ یہ اتنی پرانی بات نہیں جو ذہنوں میں دفن ہوگئی ہو۔ پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو حکومت سے دور رکھنے کے لیے ایک قانون بنایا تھا جس کے تحت عدالت سے سزا پانے والا پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا تھا۔ بے نظیر بھٹو عدالت سے سزا یافتہ تھیں، میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغوا کرنے کے مجرم قرار پائے تھے۔ یوں دونوں ہی پارلیمنٹ کی رکنیت کے اہل نہیں تھے اور نہ اپنی جماعت کے قائد بننے کے اہل تھے۔ پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو یہ دونوں پابندیاں حرف غلط کی طرح مٹادی گئیں لیکن سزا کی صورت میں پارٹی کی سربراہی نہ کرنے کی شق موجود رہی کیوں کہ میاں نواز شریف کی سزا صدر مملکت رفیق تارڑ نے معاف کردی تھی حالاں کہ سزا معاف ہونے کی صورت میں جرم معاف نہیں ہوتا۔ میاں نواز شریف کو نااہلی کی سزا ملی تو نواز لیگ نے مذکورہ شق کو ختم کردیا، قانون کے ساتھ مذاق کرنے کا یہ سلسلہ نیا نہیں حکمرانوں نے اپنے مفادات اور تحفظات کے لیے آئین کو موم کی ناک بنادیا ہے۔ جس طرح جی چاہے موڑتے رہتے ہیں اور موڑتے رہیں گے۔ پرویز مشرف کے این آر او سے مستفید ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ کسی بھی مجرم کو معاف کردیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عدلیہ خاموش تماشائی بنے رہنے ہی میں عافیت سمجھتی ہے۔
نہال ہاشمی نے سلطان راہی کی طرح بڑھک لگائی، جی بھر کر عدالتوں کو لتاڑا مگر نہال ہاشمی عدالتوں کی طرف سے ابھی تک نہال ہیں حالاں کہ ان کی بڑھک نے ہر محب وطن کو نڈھال کردیا ہے۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ عدالت ان کے معافی نامے کو قانون کی بالادستی قرار دے کر خوش دلی سے قبول کرلے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ قوم کی دل آزاری کرنے والے کو عدلیہ کس اختیار کے تحت معاف کرسکتی ہے۔ غور طلب امر یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان شریف فیملی اور بدعنوان سیاست دانوں کے لیے معرض وجود میں آیا ہے۔ نہال ہاشمی جیسے لوگوں کو ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنے کا حق کس نے دیا کہ وہ مخالف پر پاکستان کی زمین تنگ کرنے کی دھمکی دیں۔ ہماری عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لینے کی بڑی مہارت رکھتی ہے مگر قومی مفادات اور ملکی تحفظات سے کھیلنے والوں اور اوٹ پٹانگ فلسفہ جھاڑنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
بے نظیر بھٹو کو ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی تھی مگر غیر موجودگی میں دی جانے والی سزا معطل نہیں ہوتی۔ تھائی لینڈ کی عدالت نے سابق وزیراعظم کی غیر موجودگی میں فرائض سے غفلت برتنے پر مجرم قرار دے کر پانچ سال کی سزا سنائی ہے جو معطل نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں کا تو باوا آدم ہی نرالہ ہے یہاں غفلت تو کیا اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کو بھی کوئی نہیں پوچھتا حالاں کہ ہمارے آئین میں اس کی سزا موجود ہے مگر المیہ یہ ہے کہ حکمران اور بااختیار طبقے کو سزا دینے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔ ان پر تو سات خون بھی معاف ہیں اب تو چودہ خون معاف ہوگئے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟؟۔ امریکا کے باوقار اور سربلند ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہاں کی عدلیہ بہت مضبوط اور طاقت ور ہے اتنی طاقت ور کہ امریکی صدر کے غیر آئینی اور غیر ضروری احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہے۔ ہماری عدالتیں اسی لیے بے توقیر اور بے وقار ہیں کہ وہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں دلچسپی لینے کی روادار نہیں۔ بے بنیاد اور جعلی مقدمات کی بھرمار ہے مگر کوئی عدالت انہیں خارج کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔