نہال ہاشمی نے سلطان راہی کی طرح بڑھک لگائی، جی بھر کر عدالتوں کو لتاڑا مگر نہال ہاشمی عدالتوں کی طرف سے ابھی تک نہال ہیں حالاں کہ ان کی بڑھک نے ہر محب وطن کو نڈھال کردیا ہے۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ عدالت ان کے معافی نامے کو قانون کی بالادستی قرار دے کر خوش دلی سے قبول کرلے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ قوم کی دل آزاری کرنے والے کو عدلیہ کس اختیار کے تحت معاف کرسکتی ہے۔ غور طلب امر یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان شریف فیملی اور بدعنوان سیاست دانوں کے لیے معرض وجود میں آیا ہے۔ نہال ہاشمی جیسے لوگوں کو ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنے کا حق کس نے دیا کہ وہ مخالف پر پاکستان کی زمین تنگ کرنے کی دھمکی دیں۔ ہماری عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لینے کی بڑی مہارت رکھتی ہے مگر قومی مفادات اور ملکی تحفظات سے کھیلنے والوں اور اوٹ پٹانگ فلسفہ جھاڑنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
بے نظیر بھٹو کو ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی تھی مگر غیر موجودگی میں دی جانے والی سزا معطل نہیں ہوتی۔ تھائی لینڈ کی عدالت نے سابق وزیراعظم کی غیر موجودگی میں فرائض سے غفلت برتنے پر مجرم قرار دے کر پانچ سال کی سزا سنائی ہے جو معطل نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں کا تو باوا آدم ہی نرالہ ہے یہاں غفلت تو کیا اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کو بھی کوئی نہیں پوچھتا حالاں کہ ہمارے آئین میں اس کی سزا موجود ہے مگر المیہ یہ ہے کہ حکمران اور بااختیار طبقے کو سزا دینے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔ ان پر تو سات خون بھی معاف ہیں اب تو چودہ خون معاف ہوگئے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟؟۔ امریکا کے باوقار اور سربلند ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہاں کی عدلیہ بہت مضبوط اور طاقت ور ہے اتنی طاقت ور کہ امریکی صدر کے غیر آئینی اور غیر ضروری احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہے۔ ہماری عدالتیں اسی لیے بے توقیر اور بے وقار ہیں کہ وہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں دلچسپی لینے کی روادار نہیں۔ بے بنیاد اور جعلی مقدمات کی بھرمار ہے مگر کوئی عدالت انہیں خارج کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔