گورنر سندھ اور صدر مملکت کی جانب سے کے الیکٹرک کی وکالت جاری تھی کہ اس ادارے کا ایک اور کارنامہ سامنے آگیا جس کے مطابق کے الیکٹرک نے بی الیکٹرک کے نام سے برق انجینئرنگ کو ماہانہ رقم وصولی کا ٹھیکا دے دیا ہے اس کے بعد سے یہ ٹھیکیدار اپنے غنڈوں کی مدد سے صارفین سے کہیں زیادہ رقم وصول کرتے ہیں۔ اس کمپنی نے کراچی کے مضافات میں کئی گوٹھوں میں یہ نظام قائم کر رکھا ہے، نئے آباد ہونے والے علاقوں کو میٹر فراہم کرنے کے بجائے کنڈا سسٹم کے تحت بجلی دی جاتی ہے۔ ٹھیکیدار پی ایم ٹی پر نصب میٹر کے حساب سے خود نئے بل بناکر صارفین سے منہ مانگے بل وصول کرتا ہے اور صارف بجلی کٹنے کے خوف سے ادائیگی کرتے رہتے ہیں۔ سوا ل یہ ہے کہ کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا جب صدر، گورنر اور حکومت سب ہی عوام کو لوٹنے والوں کی پشت پناہی کررہے ہوں تو لٹیرے کا ہاتھ کون پکڑے گا۔ کیا حکمران بجلی کے بلوں کے مسئلے پر بھی پر تشدد ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کے منتظر ہیں۔ اگر حکومت نے اپنا وجود نہیں منوایا تو اس مسئلے پر بڑے پیمانے پر خون خرابا ہوسکتا ہے۔کیا حکمرانوں کو عوام کے مفاد کا تحفظ کرنے کی ذمے داری نہیں دی گئی۔ وہ اپنی تنخواہوں میں اضافہ تو کسی بحث مباحثے کے بغیر کرالیتے ہیں لیکن ایک بجلی کمپنی شہریوں کو ہر طرح سے لوٹ رہی ہے اس پر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ کراچی کے شہریوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کس قسم کے لوگوں کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کرتے ہیں اب انہیں موقع ملے تو کم از کم درست افراد کو تو منتخب کریں۔