بمباری تو ہم پہلے ہی کررہے ہیں

609

ملک الطاف حسین

وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکا نشاندہی کرے بمباری ہم خود کریں گے، مشترکہ کارروائی کا حصہ بن سکتے ہیں، دہشت گردوں کو بلا امتیاز ہدف بنارہے ہیں وغیرہ وغیرہ‘‘۔ وزیر خارجہ کا مذکورہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب وہ دورہ امریکا کے دوران پاکستانی سفارت خانے میں موجود امریکی و عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو فرما رہے تھے۔ وزیر خارجہ کے مذکورہ خطاب نے شرمندگی اور خوف میں مبتلا کئی طرح کے سوال اُٹھائے ہیں کہ جن کا وسیع تر قومی مفاد میں جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا اور فاٹا کے علاقوں میں اب تک جتنے بھی ’’فوجی آپریشن‘‘ ہورہے ہیں وہ کس کی نشاندہی پر ہوئے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوات اور خیبر ایجنسی سے شروع ہو کر جنوبی اور شمالی وزیرستان تک پھیلے ہوئے ان تمام آپریشنوں کو بروئے کار لانے کے لیے امریکا ہی نے دباؤ ڈالا اور ہدف بھی امریکا ہی نے بتائے۔ اگر یہ بات غلط ہے تو وزیر خارجہ بتائیں کہ مذکورہ علاقوں میں ’’فوجی آپریشن‘‘ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ سچ نہیں کہ افغانستان میں جب ’’طالبان‘‘ کی حکومت تھی تو پاکستان کے مذکورہ تمام علاقے پرامن اور پرسکون تھے، کسی قسم کی کشیدگی، تصادم یا دہشت گردی نہیں تھی مگر جوں ہی اکتوبر 2001ء میں امریکی ناٹو افواج افغانستان پر حملہ آور ہوئیں تو پورا خطہ بدامنی اور انتشار کا شکار ہوگیا، غیر ملکی جارح افواج کے خلاف مزاحمت اور ردعمل افغانستان کے اندر شروع ہوگیا جب کہ افغانستان سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقے بھی متاثر ہونے لگے، جس کے بعد امریکی دباؤ پر ہی پاکستانی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کردیے گئے۔ 16 برسوں سے امریکا افغانستان پر حملہ آور ہے اور تقریباً 14 برسوں سے ہم اپنے ملک کے اندر فوجی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2014ء سے امریکا پاکستان کے اندر جہاں چاہتا ہے ڈرون حملے بھی کررہا ہے۔ ایبٹ آباد اور سلالہ چیک پوسٹ سے لے کر وزیرستان اور بلوچستان تک امریکی ڈرون اور ہیلی کاپٹر حملے کرچکے ہیں، کہیں پر بھی ہمارے لڑاکا جہازوں نے ان کا راستہ نہیں روکا۔ امریکی بمباری کے لیے یہ تعاون اور امداد نہیں تو اور کیا ہے؟۔ وزیر خارجہ قوم کو بتائیں کہ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے گزشتہ 16 برسوں سے امریکا کے جن جرنیلوں نے پاکستان کا دورہ کیا ان دوروں کی تعداد اور ان جرنیلوں کو دی جانے والی بریفنگ کا دورنیہ کیا ہے، اس بات کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ بھارت کے ساتھ سرحد پر پائی جانے والی کشیدگی کا جائزہ لینے اور حقائق معلوم کرنے کے لیے ان امریکی جرنیلوں نے کبھی بھی ورکنگ باؤنڈری یا کنٹرول لائن کا دورہ نہیں کیا، آخر کیوں، کیا اس طرح سے یہ بات واضح نہیں ہو جاتی کہ امریکی جرنیلوں کی دلچسپی اور توجہ محض اُن علاقوں تک محدود اور مرکوز تھی کہ جہاں وہ آپریشنز کروارہے تھے یا مزید کروانا چاہتے تھے (ڈومور)؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکی جرنیلوں کے مذکورہ تمام دورے افغان جنگ میں پاکستان کے ’’فوجی کردار‘‘ کو مزید تیز کرنے کے لیے تھے نہ کہ ان دوروں میں پاکستان کی حفاظت کا کوئی بندوبست یا فکر تھی اگر ایسا ہوتا تو مشرقی سرحد پر بھی امریکی جرنیل تشریف لے جاتے کہ جہاں آئے دن بلاجواز بھارتی فوجیں پاکستان کے اندر فائر کرتی اور شہریوں کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔

پاکستان امریکا کا غیر ناٹو اتحادی ہے، غیر ناٹو اتحادی کا درجہ کیوں دیا گیا، ’’ناٹو‘‘ تو افغانستان کے اندر حالت جنگ میں ہے تو پاکستان بھی اس جنگ میں برابر کا شریک سمجھا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں جنرل مشرف کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ امریکی ناٹو افواج کو افغانستان پر حملے میں مدد دینے کے لیے پاکستان کی بندرگاہ، ہوائی اڈے اور فضائی حدود سمیت زمینی راستوں سے ’’ناٹو سپلائی‘‘ کی اجازت دینے کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات بھی فراہم کی جائیں گی تو اس فیصلے کا مطلب کیا ہوا، کیا اس سے بڑھ کر امریکی فوج کے ساتھ مزید کوئی تعاون بھی ہوسکتا ہے؟ جنرل مشرف کے بعد میں شمسی ائر بیس (بلوچستان) امریکی ڈرون جہازوں کے استعمال کے لیے مخصوص تھا۔ جیکب آباد (سندھ) کے شہباز ائر بیس کو امریکی بمبار جہاز افغانستان پر حملوں کے لیے استعمال کررہے تھے۔ کیا وزیر خارجہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ شمسی ائر بیس سے کتنے ڈرون حملے پاکستان کے اندر ہوئے اور شہباز ائر بیس سے افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے امریکی بمبار جہازوں نے کتنے ہزار بار اڑان بھری۔ کیا ایک برادر اسلامی اور غریب پڑوسی ملک پر کارپٹ بمباری کے لیے امریکا کو پاکستان کے اندر ائر بیس استعمال کرنے کی اجازت دینا اور دیگر فوجی نوعیت کی سہولتیں مہیا کرنا کوئی معمولی بات تھی، کیا اسلامی تعلیمات اور تسلیم شدہ انصاف کے اصول اس طرح کی حرکت کو معاف کرتے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو کیونکر غلط ہوگا کہ جنرل مشرف سے لے کر اب تک کے تمام پاکستانی جنرل، صدر اور وزیراعظم امریکی نشاندہی پر پاکستان سمیت افغانستان کے اندر بھی ہونے والی بمباری میں امریکی صدر بش، اوباما اور ٹرمپ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں؟۔
پاکستان کے 70 ہزار شہری شہید ہوگئے۔ ہزاروں لوگ زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے، لاکھوں بے گھر کردیے گئے، پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوگیا۔ ان کا ذمے دار کون ہے؟ تاہم اگر یہ کہا جائے کہ ان نقصانات کے ذمے دار وہ جرنیل اور سیاستدان حکمران ہیں کہ جو امریکا کی برپا کی ہوئی ’’افغان جنگ‘‘ کا حصہ بن کر خود کو محفوظ اور پاکستان کو مضبوط بتارہے تھے
حالاں کہ صورت حال اس کے برعکس تھی۔ امریکا اور افغانستان کے درمیان شروع ہونے والی جنگ میں پاکستان کا شامل ہونا کسی بھی حوالے سے خطے کے امن اور قومی مفاد میں نہیں تھا، آج ثابت ہورہا ہے تاہم ہماری حکمران قیادت امریکی خوف اور خوشامد کی وجہ سے صلیبی دہشت گردوں کے ساتھ جاکھڑی ہوئی۔ لہٰذا وزیر خارجہ خواجہ آصف نے واشنگٹن میں یہ جو کہا ہے کہ ’’ہم امریکی نشاندہی پر بمباری کرنے کے لیے تیار ہیں اور مزید یہ کہ مشترکہ کارروائی کا بھی حصہ بن سکتے ہیں‘‘ کوئی نئی بات نہیں یہ کام تو بہت پہلے سے ہورہا ہے، ہاں البتہ وزیر خارجہ صاحب اگر کوئٹہ، راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں امریکا کو بمباری کرنے میں مدد اور اجازت دینا چاہتے ہیں تو یقیناًیہ ضرور نئی بات ہوگی۔

ہم وزیر خارجہ خواجہ آصف کی ملک دشمنی پر مبنی مذکورہ پیش کش کی شدید مذمت کرتے ہوئے یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ’’انسداد دہشت گردی کی جنگ‘‘ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے کیوں کہ اصل جنگ ’’بدلے کی جنگ‘‘ ہے جو افغانستان ہو یا عراق ہر جگہ حملہ آور غیر ملکی فوجوں کے خلاف لڑی جارہی ہے جب تک مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطین سے لے کر مقبوضہ کشمیر تک غیر ملکی فوجیں قابض اور حملہ آور رہیں گی تب تک ’’بدلے کی جنگ‘‘ بھی جاری رہے گی۔ ہم خطے کے استحکام اور عالمی امن کے لیے دعا گو ہیں تاہم امن و استحکام اسلامی ممالک سے غیر ملکی اور غیر مسلم فوجوں کے انخلا کے ساتھ مشروط ہے۔