ایک طرف کشمیر میں ہندوؤں کا ظلم و ستم ہے، فلسطین میں اسرائیل قیامت ڈھائے ہوئے ہے، افغانستان میں امریکی فوج بڑے پیمانے پر بم برسا رہی ہے تو دوسری طرف اب برما میں بدھسٹ قوموں نے بھی آخر اپنے رنگ ڈھنگ دکھا دیے، جو انسانیت سے عاری جنگلی جانوروں سے بھی بد تر نکلے۔ آنگ سان سوچی جو انسانی حقوق کی علمبردار تھی اس کے زیر سایہ بے ضرر، معصوم انسانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا۔ عالم اسلام بالخصوص انسانیت کے عالمی ٹھیکیداروں کو ہوش نہیں آیا؟ اسلامی تنظیم او آئی سی ابھی تک ان نہتے مسلمانوں کے لیے کوئی اجلاس کیوں نہیں بلاسکی؟ جو بحیرۂ انڈمان کے سمندروں میں بھٹک رہے ہیں جن کا کوئی گھر نہیں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔ مسکینیت و لاچارگی ان کے چہروں سے عیاں ہے، روئے زمین پر کون سا ظلم باقی رہ گیا ہے جو ان کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا۔ خاندان کے خاندان زندہ جلادیے گئے، املاک سے محروم کردیا گیا، ان سطور کے ذریعے میں موجودہ حکمرانوں سے کہتی ہوں کہ خدارا! اپنے ان مظلوم بہن بھائیوں کی جس قدر اخلاقی، مالی اور سفارتی مدد کرنی چاہیے اس کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے سے کیوں گریز کیا جارہا ہے؟
کم از کم برما کا سفارت خانہ تو بند کردیں، کیا اس پر بھی آپ عالمی دباؤ کا شکار ہیں یا عادتاً اس مسئلے کو اہم نہیں سمجھا جارہا۔ پاکستان پر تو روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کا زیادہ حق اس لیے بھی ہے کہ 1948ء میں جب برما کو آزادی ملی تو اراکان کے مسلمان مشرقی پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے لیکن برما کی بدھسٹ قوم نے انہیں ایسی کسی کوشش سے یہ کہہ کر روک دیا کہ ہم مل کر حکومت کریں گے، اس طرح اُن حالات کی وجہ سے ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور رفتہ رفتہ وہ برمی حکومت کے زیر تسلط آگئے۔ من حیث القوم ہمیں بھی ان کی دلجوئی کرتے ہوئے اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ آخر میں، میں سلام پیش کرتی ہوں ترکی کے صدر رجب اردوان کو جنہوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ان مظلوموں کی امداد کا بیڑہ اٹھالیا ہے۔
فرح افتخار، عائشہ منزل بلاک 7 کراچی