اسماء صدیقہ
دوسری قسط
گزشتہ سے پیوستہ
آجاتا ہے اﷲ جانے کیسا ملے گا اگلا گھر‘‘ ماہانے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’کیسا ہونا ہے ایسے ہی رہیں تو روایتی قید والی زندگی ملے گی، وہی ماسیوں سے بد تر حلیہ ساس نندوں کے لعن طعن میاں کی غلامی اور آدھی درجن بچے پالتی مرجانا احمق لڑکی اب اور ہی زمانہ ہے اب تو ماسیاں بھی آگے سے آگے جارہی ہیں، ان کی بہو بیٹیاں بھی پارلر آتی ہیں اور ہماری ماسی تو مارننگ شو کا پاس بھی لے آتی ہے تم بیٹھی مارننگ شو ہی دیکھتی رہنا‘‘۔ رامین بتارہی تھی۔
’’بس کرو یار میں پہلے ہی کم ٹینشن میں ہوں بتائو ماسیاں بھی مارننگ شو میں جانے لگیں ہیں اور ادھر ہماراسویرا ہی ہوکے نہیں دے رہا‘‘ وہ حسرت سے بولی کالج چھوڑا انٹر کے بعد تعلیم کو خیرباد کہا مگر رامین سے ملنا نہ چھوڑا کچھ نہ سہی موبائل سہی اور کبھی اس کی گلی میں جہاںاس کا پارلر تھا فیشن کرکے وہ وہاں کسی طرح چلی ہی جاتی تھی ہاں وہ اس کے گھر اب تک نہیں گئی تھی جو کہ ذرا ایک پوش ایریا میں واقع تھا پارلر در اصل رامین کی خالہ کا تھا، رامین وہیں بیٹھک لگالیتی کبھی مروت میں اس کا فیشل بھی کرڈالتی امی اس سلسلے میں ذرا نرم پڑجاتیں کہ اگلے گھر جانے کے لیے چہرے کا نکھار بہر حال اہم تو ہے۔
یہ پارلر بھی کھلتے ہی تیزی سے چلنے لگا مگر ابھی تک اس کی لائونچنگ نہیں ہوسکی تھی رامین نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ بطور مہمان خصوصی ایک ابھرتی ہوئی ماڈل کو بلانا ہے جس کی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے معاملہ تاخیر کا شکار ہے مگر پھر یہ دن بھی آہی گیا رامین کی خالہ نے ایک ہائی ٹی ارینج کی تھی رامین نے بہ صد اصرار ماہا کو مدعو کیا تھا ماہا کے سپنوں کا رنگ مدہم سے اور تیز ہوگیا تھا، سنہرا، سرخ، نارنجی، نیلا، پیلا ہرا اور جامنی دھنک کے سات رنگوں کا رقص آنکھوں میں جھلملارہا تھا۔
’’ارے بیٹا یہ سفید البرائڈی اور موتیوں والا بلو سوٹ تو میں رکھنے کے لیے لائی تھی تم نے اندر سے کیوں نکالا‘‘
امی نے ماہا سے جرح کی جو اس نفیس کامدار سوٹ کی کٹنگ کرنے کو تھی۔
’’امی در اصل رامین کے پارلر میں فنکشن ہے لائونچنگ کے سلسلے میں وہاں پتا ہے ایک سپر ماڈل آرہی ہے رامین نے آنے کے لیے اصرار کیا ہے‘‘ وہ خوش ہوکر بتارہی تھی یا در پردہ اجازت لے رہی تھی۔
’’توبہ توبہ، کوئی ضرورت نہیں ایسی ماڈلوں کی زیارت کرنے کی، اﷲ جانے کیسے کیسے لوگ آتے ہیں میں نے ہاتھ ہلکا رکھا وہاں جانے کی اجازت دے دی تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تم اس کا ناجائز فائدہ اٹھائو‘‘وہ سختی سے بولیں ’’امی پلیز دو قدم پہ تو جانا ہے کون سا دور ہے آپ یقین کریں مغرب تک آجائوںگی بلکہ اس سے پہلے‘‘ پلیز امی اتنا بائونڈ نہ کریں‘‘ وہ جیسے رونے کو تھی۔
’’نہ بیٹا دو قدم کیا ایک قدم بھی نہیں یہ راستے ہمارے نہیں ہیں ایسے لوگوں میں اٹھیں بیٹھیں ان ہی کا حصہ سمجھی جائوگی سن لیا نا‘‘ امی مان نہیں رہی تھیں۔
’’تو ایسا کریں امی آپ میرا گلا گھونٹ کر اگلے گھر کے بجائے اگلے جہاں بھیج دیں پہلے ہی بابا کی سختی کیا کم ہے آپ بھی کریں تھانیداری وہاں کون سے لڑکے آتے ہیں جو آپ مجھ پر شک کررہی ہیں‘‘ وہ رونے لگی تھی۔
’’باجی ایسا کرو تم یہ کالی والی چادر لپیٹ لینا اور جلدی آجانا امی دیکھو مان جائیںگی کیوں امی ہیں نا‘‘ چھوٹی زوہا نے پوری وکالت کرتے ہوئے سفارش کردی تھی۔ ’’چلو مگر آئندہ یہ اجازت بالکل نہیں ملے گی اور سنو اس ماڈل سے بات کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی!‘‘ امی پھر نرم پڑگئیں۔ یہ خیال ان کے دل میں آہی جاتا کہ ذرا سی تفریح کرلیں تو ہرج کیا ہے آخر گھر میں کب تک بند رکھوں۔
’’ارے زوہا میری پیاری بہن یار تو نے تو دل ہی خوش کردیا چلو یہ سوٹ تم اپنے کالج فنکشن میں پہن جانا‘‘ وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے بولی (واقعی کیا بروقت ساتھ دیا۔ یہ جو ہماری روایت میں اگلے گھر کا خوف اگلے جہان سے زیادہ دلایاجاتا ہے وہ کوئی واضح ڈائریکشن نہیں دے پاتا اگر دے بھی دے تو اس پر جمنے نہیں دیتا۔
’’ہائے ماہا آج تو خدا کی قسم پرنس لگ رہی ہو ہلکے سے میک اپ میں اتنا چارم آیا ہے تو پارلر کی سروس کیا غصب نہیں ڈھائے گی‘‘ رامین نے پارلر کے دروازے پر مل کر پوری تعریفی سند دے ڈالی، ساتھ ہی ایک خوش پوش اور اسمارٹ نوجوان بھی گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جیسے کسی تلاش میں ہو۔
’’ہاں بھائی یہ ماہا میری دوست میں آپ سے اس کا ذکر کرتی رہتی ہوں نا اور ماہا یہ میرے بھائی شایان‘‘ وہ خوبصورت لک لیے اٹھلاتے ہوئے اس کا تعارف کروارہی تھی۔ ’’فائن سوکیوٹ لک‘‘ نہایت بے تکلفی اور شوخی سے کمنٹس دیے گئے‘‘ تعریف ہو اور صنف مخالف کی طرف سے ہو تو اس عمر کی لڑکی کو کیا نہیں مل جاتا یا مگر عقل و شعور کی دنیا یا تو اسے خوش فہمی میں فٹ کرتی ہے غلط فہمی میں۔
اس کی چادر سر سے ڈھلک کر کندھوں پہ آگئی تھی کہ چاند بدلی سے نکلا تھا اس کو وہ پرنس لگا پہلے ہی رامین ماہا کو پرنس کہہ چکی تھی اکثر ڈراموں اور فلموں میں لو اسٹوری کا آغاز ایسے ہی سین تو ہوتے ہیں بس ایک نظر، ایک جملہ، چند ثاانییچند منٹ مگر اس میں کیا نہیں ہے۔
رامین پہلے بھی بتاچکی تھی کہ وہ ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں اچھی پوسٹ پر ہیں تب اس نے ایسی کوئی توجہ نہیں دی تھی مگر آج سرسری سی منٹوں کی ہونے والی ملاقات یا تعارف خوابوں کے رنگ کو تیز کر گیا بس ایسا ہی کوئی یا اس جیسا کوئی دل مچل کر یہی کہہ رہاتھا حالانکہ دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں … (جاری ہے)
مگر یہ عمر اتنی گہرائی میں جانے کی تھوڑی ہوتی ہے سوائے اس کے کہ حدود کا پتا بھی ہو اور احساس بھی