آمنہ منظو:رایبٹ آباد
جب ہم لفظ ’گھر‘ بولتے یا سنتے ہیں تو ایک پر سکون گوشے کا تصور ذہن میں آتا ہے، جس کو زیادہ خوبصورت اور مزید پر سکون بنانے کے لیے نت نئے طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ خواتین کے رسالے ، اخبار میں گھر کو سجانے ، صفائی، پردوں کے ڈیزائن ، کلر ، فرنیچر اور آرائش و زیبائش کے مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین جس مجلس میں مل جل کر بیٹھتی ہیں ۔موضوع بحث یہی ہوتا ہے تاکہ گھر زیادہ دیدہ زیب اور ماڈرن نظر آئے۔ آئے دن فرنیچر ،قالین اور تبدیل کیے جاتے ہیں تاکہ جدت کا احساس ہو ۔ یکسانیت سے بوریت پیدا ہوتی ہے مگر دیکھا جا رہا ہے کہ اس کے باوجود گھر میں سکون نا پید ہے ۔ مغرب کی طرح گھروں کا ٹوٹنا ہمارے ہاں پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے ۔ کچھ خواتین معاشی نا ہمواری کی وجہ سے اور کچھ باہم وقت گزارنے کی خاطر ملازمت کرنے کو ترجیح دیتی ہیں ۔ امیر گھرانوں کے مرد ، خواتین بھی خود کشی کی طرف راغب ہو رہے ہیں ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مادی اشیا ذہنی اور دلی سکون دینے سے عاری ہیں ۔ جب دل ایک دوسرے سے ناراض ، شکوے شکایتوں سے پر ہوں گے تو ظاہری ٹپ ٹاپ کو ئی اثر نہ دکھا سکے گی اس کے بر عکس اگر باہمی محبت ، در گزر ، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ، اپنے حق کو چھوڑ کر اپنے فرض کی فکر ، اپنے آرام کو قربان کرکے دوسرے کو آرام دینے کا خیال ، ایثار کا تصور ہو تو معمولی سا گھر ، سادہ سا سامان ہی انسان کو سکون اور آرام پہنچاتا ہے ۔ گھر میں میاں بیوی ایک دوسرے کے آرام کا خیال رکھیں ۔ عزت اور تعظیم سے پیش آئیں ۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کریں اور نرم خوئی اختیار کریں تو بچے خود بخود یہی اوصاف اپنائیں گے ۔ اگر غلطی کریں تو انہیں وہیں ٹوک دیا جائے تو ان کی اصلاح برو قت ہو جائے گی ۔
جہاںماں باپ ہی ایک دوسرے سے تو تکرار کرتے ہوں وہاں بچے بھی یہی سیکھیں گے۔ سب سے پہلا مکتب تو ماں کی گود اور گھر کی درسگاہ ہوتی ہے ۔ جب بچے دیکھیں گے ۔ ماں باپ، دادا ، دادی اور بزرگوں سے عزت سے پیش آتے ہیں اور ان کے آرام کا خیال رکھتے ہیں ۔ تو یقیناً وہ بڑے ہو کر اپنے ماں باپ کی خدمت بجا لائیں گے ۔ تب ہی پیارا گھر وجود میں آئے گا ۔ جہاں سب کو حقیقی پیار ملے گا ورنہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالیشان کوٹھیوں کے باسی ایک دوسرے سے روٹھ کر اپنے بچوں کی زندگیاں جہنم بنا رہے ہیں ۔ بچوں کے معصوم ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ ماں باپ میں سے کس کا ساتھ دیں ۔ جبکہ وہ دونوں سے ہی بھر پورمحبت رکھتے ہیں اوروالدین میں سے دونوں کا وجود بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بے حد اہم ہے ۔ گھر کی اساس سکون میں مضمر ہے ۔ درودیوار کی حیثیت ثانوی ہے ۔ اول رشتوں کا اعتماد ،محبت یہی بنیاد ہے اور یہی فرق مشرق کو مغرب سے ممتاز کرتا ہے ۔ جہاں بچے جوان ہوتے ہی گھر سے نکال دیے جاتے ہیں اس کے بر عکس مشرق میں بوڑھے ساس سسر ہی گھر کے بڑے ہوتے ہیں ۔ چھوٹے بچے بھی دادا دادی کے کام کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہی بزرگ باتوں اور کہانیوں میں بچوں کو بہت کچھ سکھا دیتے ہیں ۔ جو سکھانے کا ماں باپ اپنی ذمے داریوں کی وجہ سے ٹائم نہیں دے پاتے ۔ اگر خاتون خانہ ملازمت کرتی ہے تو گھریلو ملازمہ کی نگرانی ، کام کی دیکھ بھال ، بچوں کے اسکول سے آنے پر گھر کا کھلا ہونا اور ایک بزرگانہ شفقت ، یہ سب مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کا احساس کرنے کے ثمرات ہیں ۔