سرورِ کونین ﷺ نے انہیں اپنی دوسری ماں اور اپنے گھر کی آخری نشانی قرار دیا
کلیم چغتائی
یہ کوئی معمولی محفل نہ تھی !
یہاں دونوں جہانوں کے سردار نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے ۔ ان کے سامنے صحابہ کرام ؓ تھے جو بہت ادب سے بیٹھے ہوئے تھے ۔
اچانک ایک بوڑھی خاتون اس محفل میں تشریف لے آئیں ۔ ان کی رنگت گہری سانولی تھی ۔ وہ ایک سادہ سی خاتون تھیں ۔
آپ ﷺ نے ،میری ماں! میری ماں، کہتے ہوئے ان خاتون کا ادب سے استقبال کیا ۔ نہایت عزت اور احترام سے اپنی چادر ان خاتون کے لیے بچھائی اور فرمایا:’’ یہ میری والدہ آمنہ کے بعد میری دوسری امی ہیں اور میرے گھر کی آخری نشانی ہیں ۔ ‘‘
سرکار دو عالم ﷺ نے جن خاتون کے لیے خود اُٹھ کر ادب سے اپنی چار بچھائی تھی وہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا۔ آپ ؓ وہ عظیم خاتون ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین بندے رسول کریم ﷺ کے بچپن میں ان کی دیکھ بھال کی سعادت عطا فرمائی ۔ حضرت ام ایمن ؓ رسول پاک ﷺ کے پسندیدہ صحابی حضرت زید بن حارثہ ؓ کی زوجۂ محترمہ اور حضور ﷺ کے محبوب حضرت اسامہ بن زید ؓ کی والدہ ہیں ۔
حضرت ام ایمن ؓ کا اصل نام برکہ بنت ثعبلہ ہے ۔ آپ ؓ کو ام ایمن اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ ؓ کے ایک صاحب زادے کا نام ’’ایمن‘‘ ہے ۔ ام ایمن کا مطلب ہے ایمن کی ماں ۔ حضرت ام ایمن ؓ کا تعلق حبش سے تھا ۔ وہ حضور ﷺ کے والد محترم کی کنیز تھیں ۔ حضور ﷺ کے والد کے انتقال کے بعد وہ آنحضرت ﷺ کی والدۂ محترمہ کی خدمت کرنے لگیں ۔ جب آنحضرت ﷺ کی والدہ کا انتقال ہو گیا تو حضور ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے ام ایمن کو اپنے چھ سالہ پوتے محمد ﷺ کی پرورش اور دیکھ بھال کے لیے مقرر کر دیا ۔ بعد میں نبی کریم ﷺ نے حضرت ام ایمن ؓ کو آزاد کر دیا تھا ۔
حضرت ام ایمن ؓ ان افراد میں سے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دنوں میں ایمان لائے۔ آپ ؓ کی شادی حضرت عبید سے ہوئی ۔ ان سے آپ ؓ کے بیٹے ایمن پیدا ہوئے ۔ حضرت عبید بھی مسلمان ہو گئے تھے ۔ وہ بیٹے کی پیدائش کے بعد زیادہ عرصے زندہ نہ رہے ۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت ام ایمن ؓ بیٹے کو لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں تشریف لائیں ۔ حضور ﷺ نے ان کو تسلی دی اور ایک دن صحابہ کرام ؓ سے ارشاد فرمایا:
’’ جو کوئی جنت کی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو وہ ام ایمن ؓ سے نکاح کرے ۔‘‘ یہ سن کر حضرت زید بن حارثہ ؓ نے حضرت ام ایمن ؓ سے نکاح کرلیا ۔ ان سے حضرت اسامہ بن زید ؓ پیدا ہوئے ۔
آنحضرت ﷺ حضرت زید ؓ کی طرح حضرت اسامہ ؓ کو بھی بہت عزیز رکھتے تھے ۔ آپ ﷺ اپنے نواسوں حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کی طرح اسامہ ؓ سے پیار کرتے تھے ۔ حسنؓ اور اسامہ ؓ کو ایک ساتھ گود میں بٹھا لیتے اور فرماتے:’’ اے اللہ میں ان دونون سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔‘‘
جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺ نے حضرت ام ایمن ؓ کے شوہر حضرت زید بن حارثہ ؓ اور حضرت رافع ؓ کو حکم دیا کہ وہ مکہ جا کر حضرت فاطمہ ؓ ، ام کلثومؓ ، ام المومنین حضرت سودہ ؓ ، حضرت عائشہ ؓ ، ام ایمن ؓ اور ان کے بیٹے اسامہ ؓ کو مدینہ لے آئیں ۔ حضرت زید ؓ پہلے ہی ہجرت کر کے مدینہ آ چکے تھے ۔ حضور ﷺ نے حضرت زید ؓ اور حضرت رافع ؓ کو ایک ایک اونٹ اور پانچ پانچ سو درہم بھی عطا فرمائے ۔
حضرت ام ایمن ؓ نے غزوۂ احد، غزوۂ حنین اور غزوۂ خیبر میں شرکت فرمائی ۔ غزوۂ احد میں وہ حضرت ام سلیم ؓ ، ام عمارہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ مل کر زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں ۔ ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مجاہدین کے گر جانے والے تیر اٹھا کر دیتی تھیں ۔
غزوۂ احد میں ایک واقعہ پیش آیا ۔ ایک مشرک شخص حبان دشمنوں کی جانب سے لڑ رہا تھا ۔اس نے مردوں پر حملہ کرنے کی بجائے حضرت ام ایمنؓ کا نشانہ لگا کر تیر چلا دیا ۔ تیر لگنے سے حضرت ام ایمن ؓ زمین پر گر گئیں تو وہ مشرک شرمندہ تک نہ ہوا بلکہ بے شرمی سے ہنسنے لگا ۔ حضرت ام ایمن ؓ کے اس طرح تیر لگنے سے گر جانے کے باعث حضور اکرم ﷺ کو بہت تکلیف پہنچی ۔ آپ ﷺ نے ایک تیر اٹھایا اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو دیتے ہوئے فرمایا:’’حبان کو ماریں۔‘‘حضرت سعد ؓ نے وہ تیر اپنی کمان میں رکھ کر حبان کا نشانہ لیا اور تیر چلا دیا ۔ تیر حبان کی گردن کے قریب سینے میں لگا ۔ وہ الٹ کر زمین پر گرا ۔ نبی کریم ﷺ نے حبان کو یوں بد حواسی کے عالم میں گرتے دیکھا تو آپ ﷺ کے چہرے پر تبسم آ گیا اور آپ ﷺ ہنس پڑے ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’ سعد ؓ نے ام ایمن ؓ کا بدلہ لے لیا ۔ اللہ سعدؓ کی ہر دعا کو قبول فرمائے۔‘‘
غزوۂ حنین میں آٹھ صحابہ کرام ؓ ایسے تھے کہ جو شروع سے آخر تک حضور ﷺ کے ساتھ میدان جنگ میں جمے رہے ۔ ان آٹھ صحابہ ؓ میں سے حضرت ایمن ؓ نے شہادت پائی جو حضرت ام ایمن ؓ کے بیٹے تھے ۔
(جاری ہے)