اتنا زبردست رسپانس۔ ان تمام قارئین کا شکریہ جنہوں نے میسیجز کے ذریعے گزشتہ کالم کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور پسندیدگی سے آگاہ کیا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ: ’’پاک فوج ایک قومی فوج ہے۔ یہاں کسی مذہب پر پابندی نہیں۔ فوج میں عیسائی، ہندو، سکھ اور قادیانی بھی ہیں۔‘‘ جہاں تک عیسائیوں، ہندؤں اور سکھوں کا تعلق ہے ان کے افکار، ان کے نظریات اور وہ نظام جس میں وہ زندگی گزارتے ہیں وہ اہل اسلام سے قطعاً مختلف ہے لیکن اس کے باوجود وہ مسلم فوج کا حصہ بن سکتے ہیں اس احتیاط کے ساتھ کہ کمانڈنگ پوزیشن پر ان کی تعیناتی ممکن نہیں، کسی ایسے عہدے پر جس کا شمار حکمرانی میں ہوتا ہو۔ لیکن قادیانیوں کا مسئلہ غیر مسلموں جیسا نہیں ہے۔ ان کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ انہوں نے اسلام میں نقب لگائی ہے۔ ان کے افکار، ان کے نظریات اور وہ نظام جس میں وہ زندگی گزار رہے ہیں اسلام سے مختلف ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ انہیں مسلمان سمجھا جائے اور وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی پکارتے ہیں۔ وہ اسلام اور مسلمانوں پر جس مہارت، چالاکی اور دریدہ دہنی سے حملہ آور ہیں اس کا نقصان! علامہ اقبال فرماتے ہیں۔ ’’قادیانیت کا سب سے بڑا دھوکا یہ ہے کہ ایک غیر مسلم ان کو اسلام سمجھ کر قبول کر رہا ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ وہ بیچارہ ایک کفر سے نکل کر دوسرے کفر میں جارہا ہوگا۔‘‘
ایک ایسی فوج جس کا امتیاز جہاد ہے قادیانی اس کا حصہ کس طرح بن سکتے ہیں۔ مسلمان جہاد کے خوگر ہیں جب کہ قادیانی جہاد کو حرام سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں جہاد کرنا حرام ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے جہاد سے متعلق افکار ملاحظہ کیجیے: ’’میں یقین رکھتا ہوں جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوجائیں گے کیوں کہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار ہے (مجموعہ اشتہارات جلد سوم ص19)‘‘۔ ’’دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ)‘‘۔ ’’آج سے دین کے لیے لڑنا حرام کیا گیا ہے (روحانی خزائن جلد16 صفحہ17)‘‘۔ ’’ہر شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اس روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد قطاً حرام ہے (روحانی خزائن جلد17 ص28)‘‘۔ ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریز کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے۔ میں نے ممانعت جہاد اور انگریزکی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتا بیں لکھی ہیں اور اشتہارات شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں (روحانی خزائن جلد 15 ص 155)‘‘ ۔
قادیانی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بھی بدترین دشمن ہیں۔ ان کے ہر اقدام سے پاکستانی دشمنی نظرآتی ہے تاہم ان کے چند بیانات ملاحظہ کیجیے: ’’میں قبل ازیں بتاچکا ہوں کہ ہم ہندوستان کی تقسیم پر رضا مند خوشی سے نہیں ہوئے بلکہ مجبوری ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ کسی طرح پھر متحد ہوجائیں (الفضل 16مئی 1947 مرزا محمود)‘‘۔ ’’ہم نے یہ بات پہلے بھی کئی بار کہی ہے اور اب بھی کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک پاکستان کا بننا اصولاً غلط ہے (الفضل 12,13اپریل 1947)‘‘۔ ’’ممکن ہے عارضی طور پر کچھ افتراق (علیحدگی) ہو اور کچھ وقت کے لیے دونوں قومیں (ہندو اور مسلم) جدا جدا رہیں گے مگر یہ حالت عارضی ہوگی اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جلد دور ہوجائے۔ بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے (الفضل 17مئی 1947)۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ ربوہ میں مدفون مرزا بشیر الدین کی قبر کے کتبے پر جو کچھ لکھا ہے اس کا مفہوم ہے ’’ایک دن پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم ہوجانا ہے اور ایسا ہوجائے تو میرا تابوت اس مقبرے سے اکھاڑ کر قادیان میں دفن کردیا جائے۔‘‘
پاکستان کی تشکیل کے بعد بھی پاکستان دشمنی پر مبنی قادیانیوں کا کردار پہلے دن سے تاحال جاری ہے۔ مرزا طاہر احمد قادیانی نے 1984 میں لندن میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’احمدیوں کی بددعا سے عن قریب پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا‘‘ اس موقعے پر انہوں نے امریکا اور یورپی ممالک سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پاکستان کی تمام اقتصادی امداد بند کردیں۔‘‘ بانی پاکستان محمدعلی جناح کی وفات پر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی نے قائد اعظم کے جنازے میں شرکت نہیں کی۔ اس موقعے پر اس نے کہا تھا کہ: ’’مجھے کافر ملک کا مسلمان وزیر خارجہ سمجھیں۔‘‘ ہفت روزہ تکبیر مارچ 1986 کے مطابق مشہور سراغرساں جیمز سالمن ونسٹنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ شہید ملت لیاقت علی خان کو قتل کرنے والا ایک جرمن جیمز کنز ہے اس کا نام قادیانی ہونے کے بعد عبدالشکور تھا۔ اس کو سر ظفراللہ نے قادیانی بنایا تھا۔ 1965 کی جنگ کے دوران بھارتی طیاروں کے حملے کے وقت کئی قادیانی ٹارچوں سے آسمان پر لائٹیں مارتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔
عالمی تحریک تحفظ ختم نبوت کے ممتاز رہنما مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے 15جون 1998 روزنامہ جنگ لاہور میں ایک بیان میں کہا کہ صدر ایوب خان کی خواہش تھی کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن جائے چناں چہ انہوں نے وفاقی وزیر شیخ خورشید کے بھائی منیر احمد خان کی سربراہی میں ایٹمی کمیشن تشکیل دیا۔ یہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے شاگرد تھے۔ ان دونوں کی وجہ سے ایٹمی پروگرام میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ دونوں امریکا اور برطانیہ کو پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں سے آگاہ رکھتے تھے۔ زاہد ملک کی کتاب ’’ڈاکٹر عبدالقدیر اور اسلامی بم‘‘ صفحہ 123پر ڈاکٹر عبدالسلام کی پاکستان دشمنی کے بارے میں لکھا ہے۔ نیاز اے نائیک نے صاحب زادہ یعقوب علی خان کا بیان کردہ واقعہ بتایا کہ امریکا میں ایک دورے کے دوران پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر ہو رہا تھا۔ مجھے بتایا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام میں مصروف ہے اور ایٹم بم بنارہا ہے۔ میں نے انکار کیا تو سی آئی اے کا ایک اہلکار دوسرے ارکان کے ساتھ مجھے دوسرے کمرے میں لے گیا اور کسی چیز پر پڑا ہوا کپڑا ہٹایا تو کوئی گول سی گیند نما چیز دکھائی دی۔ اہلکار نے غصے سے کہا: ’’ہم کوسب کچھ معلوم ہے یہ ہے آپ کا ایٹم بم‘‘ میں نے کہا میں ٹیکنیکل آدمی نہیں ہوں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو ہوگا اسلامی بم۔ ہم سب باہر نکل رہے تھے تو میں نے ویسے ہی مڑکر دیکھا تو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میں داخل ہورہا تھا۔
قادیانیوں کے عزائم کے بارے میں لاعلم یا نرم گوشہ رکھنے والے پاکستانی حکمران اور سیکولر اور لبرل حضرات قادیانیوں اور اسرائیل کے تعلقات کے بارے میں آگہی حاصل کریں۔ ہندوستان میں قادیان اور پاکستان میں ربوہ کے بعد ان کا سب سے منظم ہیڈکواٹر اسرائیل کے شہر حیفا میں ہے۔ اسرائیل میں کسی مذہبی مشن کو کام کرنے کی اجازت نہیں لیکن قادیانیوں کو کھلی چھوٹ ہے۔ اسرائیل میں ان کی اسلام اور پاکستان دشمن سرگرمیاں مکمل اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں انجام دی جاتی ہیں۔ سیکڑوں قادیانی اسرائیلی فوج کا حصہ ہیں اور مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
قادیانی رسالت مآب ؐ سے بغاوت کا نام ہے۔ کیا آپ ؐ کے باغیوں کو پاکستان کی فوج میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ قادیانی قرآن میں تحریف کرنے والے بدبختوں کا نام ہے کیا مملکت اسلامیہ پاکستان میں ایسے لوگوں کو فوج میں شامل کیا جاسکتا ہے جن کے قرآن میں لکھا ہے ’’انا انزلنا قریب من القادیان:‘‘ یقیناًہم نے قرآن کو قادیان میں نازل کیا۔ قادیانی انبیاء کرام کی معصومیت کو فحاشی کی غلاظت میں لتھیڑنے والوں کا نام ہے کیا سیدہ مریم ؑ ، سیدنا عیسی ؑ دیگر انبیا اور صحابہ کرام کے مجرموں کو پاکستان کی فوج میں لیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں وہاں کی جاتی ہیں جہاں قانون اسلام پر مبنی ہو، جہاں اسلامی نظام نافذ ہو۔ سو قادیانیوں کو فوج میں لیتے رہیے۔ اللہ اور اس کے رسول کریمؐ کے غضب کو دعوت دیتے رہیے لیکن کب تک؟ (برائے ایس ایم ایس 03343438802)