مظفر ربانی
اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہاں کی سیکولر لابیاں ہیں اور ان کی جڑیں بہت گہری ہیں، جب کشمیر کو بزور طاقت آزاد کرانے کی بات آتی ہے تو سارے سیکولر عناصر ہر چینل پر بیٹھ کر گلے پھاڑ پھاڑ کر کہتے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے گرو امریکا کو بھی یہ سمجھائیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں تو پھر وہ کیوں پوری دنیا میں صرف اور صرف مسلمان ملکوں میں جنگ مسلط کرتا رہتا ہے۔مسلمانوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے اور خاص طور پر ان ممالک میں جو انبیاء علیہ السلام کی بعثت کے ممالک ہیں جیسے فلسطین، شام، عراق، مصر وغیرہ۔ سردست پاکستان کے سیکولر جغادریوں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ وہ بھارت کی غیر محسوس انداز میں حمایت یہ کہہ کر کرتے رہے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کشمیر کا مسئلہ مذاکرات جیسے فضول ڈراموں سے کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکے گا لیکن ان سیکولر عناصر کی انتہا سے زیادہ منافقت اس وقت کھل کر سامنے آجاتی ہے جب امریکا اور دیگر ناٹو ممالک مل کر کسی مسلمان ملک پر چڑھائی کردیتے ہیں اور اب خاکم بدہن پاکستان کی باری ہے لیکن ان کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔ آخر ٹرمپ نے بغیر سفارتی آداب اور تعلقات باہمی کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیوں براہ راست پاکستان کو نتائج کے بھگتنے کی دھمکی دی اور بہانہ دہشت گردوں کی موجودگی بنایا گیا ہے لیکن پاکستان نے تو کبھی امریکا کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔ امریکا کو پاکستان پر حملے کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف امریکا کے بہانے اکثر خود ساختہ ہی ہوتے ہیں۔ امریکا ایسی براہ راست دھمکیاں اسی وقت دیتا ہے جب کسی ملک میں وہ اپنے مہرے جما چکا ہوتا ہے جیسا کہ عراق میں کیا گیا۔
ڈیڑھ لاکھ عراقیوں کو شہید کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ عراق کے پاس کوئی خطرناک ہتھیار نہیں تھے اور اگر تھے بھی تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ بلا کسی جارحیت کے عراق کو تہس نہس کر دیا جائے کیا غیر مسلم اقوام کے پاس خطرناک ترین اسلحے کے ڈھیر نہیں لگے ہوئے اسرائیل بھارت کو کھربوں روپے کے ہتھیار بیچ رہا ہے لیکن اس پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی لیکن ان تمام جارحانہ ظلم و ستم پر تو ان کو روکنے والا کوئی نہ تھا جیسا کہ اب شام میں ہو رہا ہے کہ امریکا اور روس مل کر مسلمانوں کو مار رہے ہیں ایک مسلمانوں کی حمایت میں بمباری کر رہا ہے تو دوسرا مسلمانوں کی مخالفت میں لیکن مر صرف اور صرف مسلمان ہی رہے ہیں۔ یمن کی صورت حال پر غور کریں تو اور بھیانک صورت حال سے واسطہ پڑ جاتا ہے۔ ادھر فلسطین میں اسرائیل امریکا کے ایما پر فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ ستر برس سے جاری ہے مگر اقوام متحدہ جیسے ستو پی کر سو رہی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی روس برطانیہ کے ساتھ مل کر جرمنی کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا تھا جب کہ یہ تینوں عیسائی ممالک تھے لڑنے والے اور مرنے والے سب عیسائی تھے لیکن جب سے اقوام متحدہ وجود میں آئی ہے اس پر یہود کا غلبہ ہے اس وقت سے دنیا کے عیسائی متحد ہوتے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کرتے جا رہے ہیں اب چونکہ یہ دیگ تیار ہو چکی ہے اور کفار کو یقین ہو چلا ہے کہ اب کوئی مسلمان کسی مسلمان ملک کی مدد کو نہیں پہنچے گا تو ایک ایک کر کے سب کی خبر لی جا رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کے لیے مغرب نے ایک مہذب پلیٹ فارم بنام اقوام متحدہ تشکیل دیا تھا تاکہ اس پلیٹ فارم کے قواعد و ضوابط کے شکنجے میں کس کر مسلمانوں کو سر نہ اٹھانے دیا جائے اور اس چال میں مغرب سو فی صد کامیاب نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کو سوائے طفل تسلیوں کے اقوام متحدہ سے ۷۲ سال میں کچھ نہیں مل سکا ہے مسلم حکمرانوں کی ۹۰ فی صد اکثریت مغرب کی کاسہ لیس رہی ہے اس لیے اس نکتے پر کبھی بات نہیں کی گئی اقوام متحدہ کی افادیت اور مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے کشمیر اور فلسطین دو ٹیسٹ کیس ہیں اور ان کو اپنے جائز حقوق دلانے میں یہ فورم بری طرح ناکام ہو چکا ہے انہی حقوق کی بات انڈونیشیا کے جزیرے مشرقی تیمور کا ہو جہاں عیسائیوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو آناً فاناً مسئلے کو حل کر دیا جاتا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اقوام متحدہ صرف غیر مسلموں اور خاص طور پر عیسائیوں کے حقوق کی پاس داری کا ذمے دار ہے۔