فدائیانِ ختمِ نبوت کی توجہ کے لیے 

347

دوسرا حصہ
ایک باخبر شخص نے بتایا کہ مختلف مراحل پر جب ارکانِ پارلیمنٹ کو ’’میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ کے حذف کیے جانے پر متوجہ کیا گیا، تو سب نے کہا: ’’یار جانے دو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ لیکن ہماری شرعی ذمے داری ہے کہ ہم شواہد کے بغیر کسی پر تعیین کے ساتھ الزام نہیں لگا سکتے۔
ختمِ نبوت کے مسئلے پر قومی اسمبلی میں سب سے پہلے شیخ رشید صاحب نے آواز اٹھائی ہے، لیکن یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے بھی قانون کی منظوری کے مرحلے میں کوئی آواز بلند نہیں کی۔ اگر جناب شیخ نے اُس وقت اس لیے جان بوجھ کر آواز نہیں اٹھائی تاکہ مناسب وقت پر اِسے حکومت پر دباؤ ڈالنے اور بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جائے، اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو، لیکن اگر ایسا ہے تو اس پر اُن کے لیے آخرت میں کوئی اجر نہیں ہے، کیوں کہ یہ ’’کَلِمَۃُ الْحَقِّ اُرِیْدَ بِھَا الْبَاطِل‘‘ کے مصداق ہوگا۔ قانون کی منظوری کے وقت اس غفلتِ مجرمانہ میں دوسرے ارکانِ پارلیمنٹ کے ساتھ وہ بھی شامل ہیں، تاہم بعد میں اگر علم میں آنے کے بعد انہوں نے فوراً آواز اٹھائی ہے تو وہ یقیناًعنداللہ ماجور ہوں گے، ہم کسی کی نیتوں کا فیصلہ کرنے کے مُجاز نہیں ہیں۔ قانون سازی تو اتنا سنجیدہ کام ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں پاس کیے گئے کسی قانون میں ایک فل اسٹاپ یا کاما یا کسی لفظ کا اسپیلنگ بھی غلط درج ہوگیا ہے، تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ اسمبلی یا سینیٹ سیکرٹریٹ یا وزارتِ قانون کا کوئی افسر اپنے قلم سے اس کی اصلاح کرلے، بلکہ ایسی کسی بھی غلطی کی اصلاح کے لیے باقاعدہ قانون سازی کے طریقۂ کار کے مطابق دونوں ایوانوں سے اُس کی منظوری لینی ہوتی ہے۔
پس ہماری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کا کوئی بھی رکن اس غفلتِ مجرمانہ کی مسؤلیت سے بری الذّمہ نہیں ہوسکتا۔ جناب سیف اللہ گوندل کی فراہم کردہ اطلاع اگر درست ہے، تو اس مسؤلیت سے صرف وہ چند افراد مستثنیٰ ہیں، جن کا میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا ہے۔ لیکن نیرنگئ سیاستِ دوراں تو دیکھیے کہ جنہیں اصل میں جوابدہ ہونا چاہیے، وہ مُدَّعِی بن کر سامنے آگئے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں سے داد وصول کر رہے ہیں۔ حالاں کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ، خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ؐ اور مسلمانانِ پاکستان سے صدقِ دل سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنی اس مجرمانہ غفلت پر توبہ کرنی چاہیے۔ اگر کسی کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس قانون کی منظوری کے وقت ’’حلفیہ اقرارِ ختمِ نبوت‘‘ سے متعلق کوئی ترمیم پیش کی تھی جسے رد کردیا گیا تھا، تو اسمبلی اور سینیٹ کے ریکارڈ سے ہمیں اس کا ثبوت فراہم کریں، ہم دل وجان سے ان کی تحسین کریں گے کہ کم از کم انہوں نے ذاتی حیثیت میں اپنا فرض ادا کیا۔



تازہ المیہ قادیانیوں کے بارے پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ کا سماء چینل پر انٹرویو ہے، اگرچہ یہ مسلم لیگ ن کا سرکاری موقف قرار نہیں دیا گیا، تاہم اُن کے مندرجہ ذیل ریمارکس انتہائی حد تک قابلِ اعتراض ہیں: ’’اگراس بحث کو ندیم ملک صاحب! ہم اور زیادہ ڈیٹیل میں جاکر کریں گے، تو اُن کے متعلق جو ہمارے علمائے کرام ہیں، آپ کہتے ہیں نان مسلم، وہ ان کو نان مسلم تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ اپنے موقف کی تائید میں وہ مزید کہتے ہیں: ’’آپ ڈیٹیل میں دیکھیں تو یہ بالکل وہ تمام عقائد یعنی ہماری نماز ہے، روزہ ہے، تو یہ اُن سب چیزوں کے اوپر عمل بھی کرتے ہیں، یہ اپنی مساجد بھی بناتے ہیں، اُن میں اذان بھی دیتے ہیں، بس آکر اس پوائنٹ کے اوپر یہ اختلاف کرتے ہیں، تو اس لیے اُن کے متعلق جو جذبات ہیں یا فتوے ہیں، وہ بالکل Otherwise ہیں‘‘۔ یہ بیان کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے اور نہ ان کی یہ تاویل درست ہے کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ انہیں اپنی غلطی تسلیم کر کے غیر مشروط طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم خاتم النبیین ؐ کے حضور صدقِ دل سے توبہ کرنی چاہیے اور مسلمانانِ پاکستان سے معافی مانگنی چاہیے، گول مول وضاحتیں بیکار ہیں، بلکہ ’’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘‘ کے مصداق ہیں اور اِن رکیک تاویلات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ مذہبی امور پر اپنا پالیسی اسٹیٹمنٹ دینے کے لیے کسی ذمے دار مذہبی شخصیت کا تقرر کیا کریں جسے زبان وبیان پر عبور ہو اور مذہبی حساسیت اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے رد عمل کا کما حقہٗ احساس ہو، مسلم لیگ ن میں پیر امین الحسنات شاہ اس کے لیے بہترین انتخاب ہوسکتے ہیں۔
ہماری معلومات کے مطابق علمی دنیا میں صرف ایک لبرل اسکالر ہیں، جن کا موقف یہ ہے: ’’کسی فرد یا ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو غیر مسلم قرار دے‘‘۔ ان کا یہ موقف اجماعِ امت کے خلاف ہے، کیوں کہ عہدِ رسالت مآب ؐ کے بعد بھی اسلامی ریاست کا تسلسل قائم رہا اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ رسولِ اکرم ؐ کے خلیفۂ اول منتخب ہوئے۔ انہوں نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں اور ان کے پیروکاروں کو مُرتَد قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کیا اور ان کا قَلع قَمع کیا، یہ اس مسئلے پر نبوت ورسالت کے بعد مسلمانوں کے سب سے پاکیزہ نفوس یعنی صحابۂ کرام کا اجماعِ کلی تھا، اس کے بارے میں کسی ایک صحابی سے بھی کوئی نکیر ثابت نہیں ہے‘‘۔ نیز وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی باطل خرافات کو شیخِ اکبر محمد بن عربی ؒ کی شطحیات پر قیاس کر کے قابلِ معافی گردانتے ہیں۔ ان کے یہ نظریات امتِ مسلمہ کے اجماعی نظریات کے برعکس ہیں۔ بعض مذہبی جرائد میں ان کے نظریات پر نقد ونظر شائع ہوتا رہتا ہے۔



قادیانیوں سے مسلمانوں کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ وہ دستور میں بیان کردہ اپنی حیثیت کو تسلیم کریں، خود کو غیر مسلم پاکستانی کے طور پر متعارف کرائیں، جب تک وہ اپنی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے، وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور سے منحرف قرار پائیں گے۔ قادیانی عقیدے پر پیدا ہونے والے، پروان چڑھنے والے اور اس کا اقرار کرنے والے قادیانیوں کو دستورِ پاکستان کے مطابق شہری حقوق حاصل ہیں، لیکن انہیں مسلمانوں کے مذہبی شعائر،جس میں مسجد کا عنوان بھی شامل ہے، کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسماعیلی حضرات اپنے مذہبی مرکز کو جماعت خانہ کہتے ہیں، اُن پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہے۔ روزے کا کوئی نہ کوئی مذہبی تصور غیر اسلامی مذاہب میں بھی شامل ہے، ان کی اپنی اصطلاحات ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان کی مسلّح افواج میں شمولیت اختیار کرنیوالے ہر مسلمان سے اقرارِ ختمِ نبوت کا وثیقہ لیا جاتا ہے، البتہ غیر مسلم جوان اور افسران اس سے مستثنیٰ ہیں، اس حد تک یہ بات درست ہے۔ البتہ دستورِ پاکستان کے شیڈول سوم میں ریاست کے مختلف اعلیٰ مناصب پر فائز عہدیداروں کے حلف نامے کا متن درج ہے، اس کی رُو سے صدر اور وزیرِ اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حلف نامے میں اقرارِ ختمِ نبوت کے کلمات شامل ہیں، لہٰذا کوئی بھی غیر مسلم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق پاکستان کا صدر یا وزیرِ اعظم نہیں بن سکتا۔
اس کے علاوہ صوبائی گورنرز، وفاقی وصوبائی کابینہ کے ارکان، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور مسلّح افواج کے سربراہان کے حلف ناموں میں اقرارِ ختمِ نبوت کے الفاظ شامل نہیں ہیں، جس کے لازمی معنی یہ ہیں کہ مطلوبہ پیشہ ورانہ اہلیت وقابلیت اور تجربے کا حامل کوئی بھی غیر مسلم پاکستانی ان عہدوں پر فائز ہوسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری نے ہندوؤں کی ایک تقریب میں کہا تھا: ’’میری خواہش ہے کہ غیر مسلم بھی پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم بنیں‘‘۔ ان کی یہ خواہش دستورِ پاکستان کے منافی ہے، کیوں کہ آئینِ پاکستان میں درج صدر اور وزیر اعظم کے حلف نامے سے اقرارِ ختمِ نبوت کے میثاق کو حذف کیے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا۔ پس ہمارے سیاستدانوں کو داد وتحسین اور نعرے بازی کے شوق میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تختۂ مشق بنانے کی روِش ترک کردینی چاہیے، ورنہ لازماً تنقید بھی ہوگی اور احتجاج بھی ہوگا، کیوں کہ: ’’اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں‘‘۔