عنایت علی خان
کوئی بھی قوم جو اپنے مخصوص نظریۂ حیات کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے وہ اُس مخصوص نظریے کو اپنے نصاب تعلیم میں سمو کر اس کی تبلیغ و ترسیل کا خاص طور پر اہتمام کرتی ہے۔ میرے ایک دوست جامعہ سندھ سے وظیفے کے ایک منصوبے کے تحت اُس وقت کے کمیونسٹ روس میں ارضیات (geology) کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کرنے گئے تو اُن کے نصاب میں لادین اخلاقیات کا لازمی پرچہ بھی شامل تھا۔ اسی طرح امریکی نصاب میں سرمایہ دارانہ جمہوریت نصاب کا لازمی حصہ ہے اور اسرائیل نے تو عبرانی (hebrew) زبان کی یونیورسٹی قائم کی ہے۔ عبرانی وہ زبان جو اب تک مردہ زبانوں کے زمرے میں شامل تھی اُسے قومی زبان کا رُتبہ دینا گویا اپنے قومی تشخص کا احیا ہے۔
اس موضوع پر دینی ذہن کے حامل ماہرین تعلیم نے بہت کچھ لکھا ہے کہ پاکستان جیسی نظریاتی مملکت کا نصاب تعلیم کیا ہونا چاہیے اور کیا ہے لیکن اس پامال موضوع میں (19 ستمبر) کے جسارت کی ایک خبر نے جان ڈال دی جو یہ ہے کہ ترک حکومت نے 1918ء سے نصاب تعلیم کی تشکیل نو کا انقلابی اقدام شروع کیا ہے اور سیکولر اور کمالی ذہن کے حاملین کے شور و غوغا کے باوجود وہ اس بنیادی اور ناگزیر کام کو حکمت کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے مثلاً بارہویں جماعت کی سطح کے سبق ’’زندگی کا آغاز اور ارتقا‘‘ کے ڈارونی نظریۂ ارتقا کی جگہ ایک سبق ’’جاندار اور ماحول‘‘ سے بدل دیا ہے۔ اس کے علاوہ حب وطن کے موضوع کے تحت جہاد کا تصور بھی شامل کیا جارہا ہے۔ نظریۂ ارتقا کے حوالے سے وزیر تعلیم نے وضاحت کی ہے کہ یہ مضمون اعلیٰ مدارج میں پڑھایا جائے گا۔
مندرجہ بالا منصوبے کے تحت مسلم ترک نسل کو اُس کی دینی شناخت سے آشنا کرایا جارہا ہے تاکہ وہ رائج الوقت مغربی طرز فکر کے سحر سے باہر آکر اپنی شناخت اور دنیا میں بحیثیت مسلمان اپنے منصب اور منہاج سے واقف ہوسکے۔ ترکی کا ملکی آئین اسلامی نہیں لیکن مقتدر ہستیاں صحیح الخیال مسلمانوں پر مشتمل ہیں، چناں چہ وہ اپنے اختیار استعمال کرتے ہوئے نئی نسل کو فکری غلامی سے نجات دلا کر اُسے صحیح قومی تشخص سے آشنائی بخش رہی ہیں۔ اس تناظر میں جب ہم اسلامی آئین رکھنے والے اپنے ملک پاکستان کے تعلیمی نصاب کا جائزہ لیتے ہیں تو اُس میں مغرب کی فکری غلامی منہ سے بولتی نظر آتی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ذہنی غلامی کی تاریخ پر غائر نظر ڈال کر اس سے نجات کا احساس و ادراک پیدا کیا جائے۔
انگریزوں نے برصغیر میں جس سازشی انداز سے اقتدار حاصل کیا اور پھر جس سنگ دلانہ انداز سے ملک کے سابق حکمرانوں یعنی مسلمانوں کو مشق ستم بنایا اُس کی مثال تاریخ انسانیت میں کم ہی ملے گی۔ بقول بہادر شاہ ظفرؔ
یہ ستم کسی نے بھی ہے سنا‘ دیا پھانسی لاکھوں کو بے گنہٖ
ولے کلمہ گویوں کی سمت سے ابھی ان کے دل میں غبار ہے
انہوں نے مسلمانوں کے وقار بلکہ وجود تک کو مٹانے کے لیے ہندوؤں کے بغض کا سہارا لیا۔ لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کا یہ رمزیہ قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
جو پوچھا مجھ سے دورِ چرخ نے کیا تو مسلماں ہے؟
میں گھبرایا کہ اس دریافت میں کیا رمز پنہاں ہے
کروں اقرار تو لازم ہے یہ سختی کرے مجھ پر
اگر انکار کرتا ہوں تو خوفِ قہر یزداں ہے
بالآخر کہہ دیا میں نے کہ ہے مسلم تو یہ بندہ
و لیکن مولوی ہرگز نہیں ہے خاں ساماں ہے
اپنی زندگی کا جواز وہ یہ بیان کررہے ہیں کہ چوں کہ آپ کی چہیتی رعایا ہندو خان سا ماں بن کر آپ کو گوشت نہیں کھلا سکتی اس لیے ناگزیر لعنت کے طور پر ہی میری جاں بخشی فرمائی جائے۔ لیکن جارح یہ جانتا تھا کہ: ’’ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘۔
چناں چہ اس نے مسلمانوں کے گلے میں ازلی غلامی کا پٹا ڈالنے کے لیے نصاب تعلیم کو تبدیل کیا‘ اکبر نے کیا نپی تلی بات کہی کہ:
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
توپ سر کی پروفیسر آئے اب بسولہ (کاٹنے والا اوزار) ہٹا تو رندہ آرا ہے (ہموار کرنے والا اوزار)۔ نیز
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
*۔۔۔*۔۔۔*
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط درباری ہے
انہوں نے تو اس موضوع پر قطعات کی بھرمار کردی ہے۔
ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
*۔۔۔*۔۔۔*
حامدہ چمکی نہ تھی کالج سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی
نصاب تعلیم کے ذریعے کسی قوم کی فکر کو غلامی کے شکنجے میں جکڑنے کے موثر حربے کی حقیقت کو خود حکیم الامت علامہ اقبال نے واضح طور پر بے نقاب کیا ہے وہ کہتے ہیں
اک لُردِ (لارڈ) فرنگی نے کہا اپنے پسر سے
منظر وہ طلب کر کہ نہ ہو آنکھ تری سیر
سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر
محکوم کو کرتے نہیں تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر
تاثیر میں اکثیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
ہر بُرائی کو قابل قبول بنانے کے لیے اُسے نیکی کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے چناں چہ مغربی تعلیم کو بھی برصغیر کے باشندوں کو مہذب بنانے کا خیر خواہانہ ذریعہ بتایا گیا جس کی ذمے داری کو white man’s burden کا خوب صورت نام دیا گیا۔
چٹی چمڑی والوں کے اس سفید جھوٹ کے جلو میں جو ایک مہلک نظریہ آیا وہ ڈارونزم یعنی ارتقائے نسل انسانی کا مادی نظریہ تھا۔ آگے چلنے سے قبل ذرا اس نظریے کے پس منظر اور اس کی حقیقت سے واقفیت ضروری ہے جو اجمالاً یہ ہے کہ جب یورپ میں شہنشاہیت اور چرچ نے مذہب کے نام پر (جو عیسائیت کی بگڑی ہوئی گھناؤنی شکل تھی) ظلم و ستم کا عریاں رقص اسٹیج کیا اور عقل کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اس پر بھی قدغن لگانے کی کوشش کی تو انسان نے عیسائیت کی اس انسانیت سوز شکل کو قبول کرنے سے انکار کردیا کہ اگر چرچ شہنشاہ وقت کو خدا کا مقرر کردہ اور اس کے خلاف بغاوت کو خدا کے خلاف بغاوت قرار دے کر باغیوں کو مذہبی عدالتوں کے ذریعے زندگی سے محروم کرتا ہے گویا’’تو مشقِ ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر‘‘۔
تو عقل انسانی نے اس ڈھونگ کے ردِ عمل میں بقول علامہ اقبال واضح اعلان کردیا کہ
لا سلاطین لاکلیسا لاالٰہ
اور چوں کہ نجات انسانی کا یہ فتویٰ عقل سے صادر کیا تھا اس لیے چرچ کے ظالم خدا کے سنگھاسن پر بیٹھنے کا حق بھی اُس کو تھا۔ عیسائیت کی بنیاد ہر آسمانی مذہب کی مانند ایک خالق ہستی کی بنیاد پر تھی جب عمارت دین کی یہ بنیادی اینٹ ہی نکل گئی، منطقی طور پر زمین پر انسان کے وجود کے جواز کا سوال سامنے آیا۔ یہاں انسان کے ازلی و ابدی دشمن نے عقل کے ہاتھوں میں ڈارون کے نظریے کو عقیدے کی شکل میں تھمادیا۔ اب اس موضوع پر جسے سائنٹیفک مسلمہ حقیقت کا نام دیا گیا جن صاحبان دانش نے ذرا بھی مطالعہ کیا انہوں نے اس کے مقابلے میں لی مارک کے نظریے use and dis use کو زیادہ ترین قیاس پایا اور پھر اس نظریے میں شامل مسنگ لنک نے تو ازخود اس نظریے کی نفی کی دلیل فراہم کردی۔ اس نظریے سے ناواقف افراد کے لیے مختصر وضاحت یہ ہے کہ ڈارون کو زمین کی عمیق تہوں سے ایک سیل والے وجود کے متحجرات (Fossils) (چٹانوں پر مرتسم نقوش) تو مل گئے جن سے جنس انسانی کی ارتقائی منازل طے ہوئیں اور ایک جنس کے ارتقا سے دوسری جنس کی تشکیل کا سلسلہ جاری رہا لیکن بندر کی ایک نوع چمپینزی (جس کی بعض حرکات انسان سے مشابہ ہیں) کے بعد کی نوع کے متحجرات میسر نہ آسکے جس کے بعد کی نوع حضرتِ انسان ہیں۔ ارتقائے انسانی کی زنجیر کی اس نادر دریافت نوع کو ڈارون نے گمشدہ کڑی (Missing Link) کا نام دیا ہے۔ ایک سیل کے جانور کے متحجرات مل جانا اور چمپینزی کے بعد اور انسان سے قبل کی نوع کی نہ مل پانا ایسا ہی ہے جیسے آپ افریقا کے کسی دور افتادہ جنگل کا پھل تو توڑ لائیں لیکن اپنے صحن میں لگے ہوئے آم کے درخت کا پھل آپ کی دسترس سے باہر ہو۔ نظریہ ارتقا کے معتقدین سے یہ سوال کیا جائے تو وہ کہتے ہیں آپ اس مسئلے کو زیر بحث ہی نہ لائیں۔
۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔