پاکستان امریکی کمبل سے جان چھڑائے

305

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کوئی نئی بات نہیں کی کہ امریکا بھارت کے ساتھ ہے ۔ یہ اس کا اختیار ہے وہ بھارت کا ساتھ دے یا کسی اور ملک کا ۔ ویسے بھی جب وہ پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان کرتا تھا تو اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ایک امریکی دانشور ہی کا قول ہے کہ امریکا کی دشمنی سے زیادہ اس کی دوستی خطرناک ہے ۔ پاکستان سے دوستی کے دعوؤں کے باوجود امریکا کبھی کسی مشکل میں پاکستان کے کام نہیں آیا ۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکا پاکستان کے نہیں بھارت کے کام آیا ۔ اسی طرح 1971ء کی جنگ میں ہوا ۔ اس کے باوجود پاکستان کے تمام حکمران اسی دھوکے میں رہے یا قوم کو دھوکا دیتے رہے کہ امریکا پاکستان کا دوست ہے اور پاکستان اس کا صف اول کا اتحادی ہے ۔ اسی خوش فہمی میں پاکستانی حکمرانوں نے نہ صرف افغانستان میں امریکی دہشت گردی میں پورا تعاون کیا بلکہ عملاً پاکستان بھی امریکا کے حوالے کر دیا ۔ عجیب بات ہے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس کے خلاف مزاحمت کو امریکا نے بھی جہاد قرار دیا اور اب جب امریکا قابض ہے تو اس کے خلاف افغانوں کی مزاحمت کودہشت گردی قرار دیا گیا اور پاکستانی حکمران بھی امریکا کے ہم نوا ہیں ۔ اب پاکستان کے حکمران مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امریکا کے اہداف کے حصول کو یقینی بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ مسقط میں امریکی رضا مندی اور سر پرستی میں چار ممالک کا اجلاس ہو رہا ہے جس کا مقصد افغانستان پر امریکی فوجی اور نجی عسکری تنظیموں کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے سیاسی حل فراہم کرنا ہے ۔ یہ کہنے اور سننے میں تو بہت اچھا لگتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہیں ۔ لیکن مذاکرات کن کے درمیان؟ کیا کوئی کسی کے مکان پر طاقت کے زور پر قبضہ کر کے بیٹھ جائے تو مکان کے مالک کو مذاکرات کا مشورہ دیا جاتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ اصل مالک کے پاس اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ غاصب اور قابض کو بزور قوت اپنے مکان سے نہ نکال سکے تو بھی وہ ناجائز قبضہ کبھی تسلیم نہیں کرے گا اور اپنا مکان واگزار کرانے کی حتیٰ المقدور کوشش جاری رکھے گا ۔ اگر اس کے ہمسائے بھی حق کا ساتھ دیں اور قبضہ کرنے والے کا ساتھ دینے کے بجائے اس کا مقاطعہ کر دیں ،ا س کی ضروریات کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دیں تو مکان واگزار کرانے میں آسانی ہو گی ۔ افغانستان افغانوں کا ملک ہے جس پر امریکا بزور قوت قابض ہے اور افغان مجاہدین اس قبضے کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں جس کا حق اقوام متحدہ نے بھی دیا ہے کہ قابض طاقتوں کے خلاف جدو جہد جائز ہے ۔ اپنے مکان یا املاک کے تحفظ میں اگر کوئی مارا بھی جائے تو اسلام نے اسے شہید قرار دیا ہے ۔ لیکن کیا ستم ہے کہ پڑوسی بھی ایک ظالم اور قابض کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود امریکا راضی نہیں ہے ۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ پاکستان امریکا سے صاف کہہ دے کہ اب اس کا ساتھ نہیں دیا جا سکتا ، وہ اپنے فوجیوں کو افغانستان میں مروانے کا شوق پورا کرتا رہے ۔ ایسی خدمت کا کیا فائدہ کہ بدلے میں امریکا اسے آنکھیں دکھاتا اور دھمکیاں دیتا رہے ۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے بھارت کا ساتھ دینے کے اعلان کے ساتھ یہ کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے ساتھ ہے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہا ۔ امریکا یہ بات بارہا کہہ چکا ہے لیکن پاکستان اس کی تسلی کے لیے آپریشن کر رہا ہے اور امریکا سے ڈو مور کی صدائیں آ رہی ہیں ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکا کی اطاعت کرنے کے وعدے بھی کر آئے ہیں ۔ قرآن کریم نے واضح کر دیا تھا کہ ’’ جن کی حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے پھر رہے ہیں ، کیا ان کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟عزت تو ساری کی ساری اللہ کے قبضے میں ہے‘‘( النساء:139)۔ مسلمانوں کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ یہ یہود و نصاریٰ تم سے اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک تم ان کے رنگ میں نہ رنگ جاؤ ۔ اور فی الوقت مسلمان اللہ کے رنگ کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کے رنگ میں رنگ چکے ہیں ، پھر بھی خوش نہیں کہ ابھی غیرت مند مسلمانوں کی بڑی تعداد پر یہ رنگ نہیں چڑھا ۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مہذب قوم کی ذمے داری ہے ، امریکا اور بھارت امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کریں گے ۔



a

اس کام کے لیے امریکا نے بہت صحیح ساتھی کا انتخاب کیا ہے جس نے مقبوضہ کشمیرمیں دہشت گردی کی انتہا کر رکھی ہے اور خود بھارتی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے ۔ ہندو مت ہی سے تعلق رکھنے والے کروڑوں افراد کو اچھوت قرار دے کر انہیں معاشرے سے کاٹ کر رکھا ہوا ہے ۔ کنٹرول لائن پر آئے دن حملے کر کے شہریوں کو شہید کر رہا ہے اور بھارتی فضائیہ اور بری فوج کے سالار پاکستان پر حملوں کی دھمکی دیتے رہتے ہیں ۔ امریکا بھارت سے مل کر امن و سلامتی یقینی بنائے گا ۔ لیکن امریکی وزیر خارجہ نے خودہی امریکا کو مہذب اقوام کی فہرست سے نکال دیا کیونکہ اس وقت دنیا میں امریکا سے بڑا دہشت گرد کوئی نہیں ہے ۔ وہ 16سال سے افغانستان میں یہی کام کر رہا ہے جس میں آج کل مزید تیزی آ گئی ہے ۔ ٹلرسن اتنا ہی بتا دیں کہ امریکا نے عراق پر حملہ کیوں کیا اور ایک خوشحال مسلمان ملک کوتاراج کیوں کر دیا۔ اب امریکی صدر چھوٹے سے ملک شمالی کوریا کو نیست و نابود کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی جو دھمکیاں دے رہا ہے کیا یہ علی الاعلان دہشت گردی نہیں ہے؟ امریکا کی ایک اور ’’بڑبولی‘‘ نکی ہیلی نے بھارت کو دعوت دی کہ وہ پاکستان پر نظر رکھے اور وہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے تباہ کرنے میں ہماری معاونت کر سکتا ہے ، اپنے اہداف حاصل کرنے میں امریکا بھر پور طاقت استعمال کرے گا ۔ لیکن کیا امریکا نے افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کر لیے ۔ بھارت کوپاکستان پر نظر رکھنے اور معاونت کا پیغام دیا جا رہا ہے لیکن بھارت کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں جو دہشت گردی پھیلا رہی ہیں ، کچھ بات اس کی بھی ہوجائے ۔ بھارتی ایجنسی را کا ایجنٹ کل بھوشن یادیو تو زندہ ثبوت ہے ۔ امریکا شوق سے بھارت سے پینگیں بڑھائے ، پاکستان کے حکمران بھی کھل کر کہہ دیں کہ ہماری جان چھوڑے ، افغانستان کی تباہی میں امریکا سے کوئی تعاون نہیں کیا جائے گا ۔ پاکستان مذاکرات سے بھی دست کش ہو جائے اور یہ معاملے امریکی غاصب اور مجاہدین پر چھوڑ دے ۔