دفاع پر اندرونی بحث اور ڈرون حملے

395

بات تو شروع ہوئی تھی نااہل وزیر اعظم کے زیر مقدمہ داماد کیپٹن صفدر کے بیان سے لیکن پاک فوج کے ترجمان جناب میجر جنرل آصف غفور کو نہ جانے کیا سوجھی کہ جامعہ کراچی میں طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے اپنے مسلمان ہونے کے معاملے کو اٹھادیا۔ کہنے لگے کہ مسلمان ہوں ثبوت دینے کی ضرورت نہیں۔ یہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ نعرے لگانے کی ضرورت نہیں، عمل سے ثابت کریں، میں بھی بنیاد پرست ہوں، مغربی ممالک اور بھارت میں بھی بنیاد پرست ہیں لیکن ہر بنیاد پرست دہشت گرد نہیں ہوتا اور ہر دہشت گرد بنیاد پرست نہیں ہوتا۔
انہوں نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ فوج میں خاص مسلک کے لوگوں کی بھرتی پر پابندی نہیں۔ پاک فوج میں عیسائی، ہندو اور سکھ بھی ہیں۔ یہ بات انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے نااہل سربراہ میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کے مطالبے کے حوالے سے کہی ہے جس میں انہوں نے پاک فوج اور عدلیہ میں اعلیٰ مناصب پر قادیانیوں کے تقرر پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا اور اشارہ دیا تھا کہ قادیانی ملک میں خرابیوں کے ذمے دار ہیں۔
اول تو آصف غفور صاحب کو اس بات کا خود براہ راست جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی دوسرے یہ کہ فوج کے اہم منصب پر ہونے کے ناتے اور فوجی اور بات کے حوالے سے بھی ایک ریٹائرڈ کیپٹن کے بالواسطہ الزام کا براہ راست جواب دینے کی ضرورت ایک میجر جنرل کو نہیں تھی۔ انہیں تو شٹ اپ کال دینی چاہیے تھی۔ لیکن انہوں نے کیپٹن صفدر کا نام ہی لے لیا اور کہا کیپٹن صفدر اپنا حلف بھول گئے شاید۔۔۔ ہر مسلمان فوجی احمدی اور قادیانی نہ ہونے کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کرتا ہے۔ آصف غفور صاحب ایک اور غلطی کر گئے ایک تو اپنے سے کہیں جونیئر رینک والے کی بات کا جواب دے دیا جب کہ دوسری غلطی یہ کی کہ معاشی صورت حال پر انہوں نے بھی بیان داغ دیا۔ معاشی صورت حال پر تو آرمی چیف نے بھی بیان دیا تھا لیکن ان پر کون تنقید کرے۔ چناں چہ وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی آئی ایس پی آر کے ترجمان ہی کی کرفت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایس پی آر کے ڈی جی کو معاشی صورت حال پر تبصرے نہیں کرنے چاہئیں، اس سے عالمی سطح پر اچھا تاثر نہیں پیدا ہوتا۔ ویسے یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا سویلین وزیر میں یہ ہمت ہے کہ وہ دفاعی صورت حال پر تجزیہ کرے؟؟ حالاں کہ پڑوسی ملک بھارت جس کی مثالیں دی جاتی ہیں اس کے وزیراعظم نہرو نے تو آرمی چیف کو اظہار وجوہ کا نوٹس دے دیا تھا کہ کب جنگ کرائے اور کب نہیں، کہاں جنگ ہوگی اور کہاں نہیں۔ یہ فیصلہ سیاسی قیادت کرے گی، جرنیل میں ہمت نہیں تو گھر جائے۔ اگلے دن جی ایچ کیو سے معذرت اور وضاحت آگئی۔
لیکن اب بات وہیں پہنچ گئی ہے جس کا خدشہ تھا یعنی اب دفاعی امور اور سویلین امور آمنے سامنے ہیں۔ ایک خبر آئی کہ امریکی ڈرون حملوں میں ہلاکتیں 36 ہوگئی ہیں اور امریکیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملے پاک افغان سرحد پر ہوئے ہیں اور آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ یہ حملے افغانستان میں ہورہے ہیں۔ سب سے دلچسپ تبصرہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کیا ہے، کہتے ہیں کہ ڈرون حملے زیرو لائن پر ہوا ہے، یہ زیرو لائن کیا ہے، اسے سمجھنے میں بڑی مشکل ہورہی ہے، کنٹرول لائن یا جنگ بندی لائن تو سب نے سنا ہے۔ افغانستان میں ڈیورنڈر لائن ہے خواجہ صاحب شاید یہی کہنا چاہتے تھے جو آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہا کہ حملے پاکستانی علاقوں میں نہیں ہوئے۔ لیکن خواجہ آصف سرحدوں میں اگر زیرو لائن ہوگی تو کسی کو بھی پناہ گاہ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ ایک لکیر کے ایک جانب افغانستان ہے اور دوسری جانب پاکستان۔ حملہ کہیں تو ہوا ہے اگر پاکستانی علاقوں میں حملہ نہیں ہوا ہے اور امریکا نے حملہ کیا ہے تو بڑی اچھی بات یہ ہے کہ پھر امریکا نے حقانی نیٹ ورک کے افغانستان میں موجود ہونے کا اعتراف کرلیا ہے تو پھر کریں افغان علاقے میں ڈرون حملے اور حقانی نیٹ ورک کا صفایا۔ پھر پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ چھوڑ دیں۔



a

خواجہ آصف تو وزارت خارجہ میں نئے نئے ہیں اس لیے ابھی طے نہیں کر پائے ہوں گے کہ بیان کیا دینا ہے۔ بس یہ طے ہے کہ بیان ضرور دینا ہے تو انہوں نے بیان دے دیا، اسے سنجیدہ نہ لیا جائے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان سیاسی اور عسکری بیان بازوں کو ایسے مواقعے پر ایک پیج پر رہنا چاہیے، چار سال سے ایک پیج کی جو گرداں جاری تھی میاں نواز شریف کی نااہلی نے اس ایک پیج کے درمیان لکیر کھینچ دی ہے۔ شاید یہی زیرو لائن ہے جس کے نتیجے میں ایک پیج پر موجود لوگ الگ عبارتیں لکھنے اور پھیلانے میں مصروف ہیں۔ امریکی ڈرون کا ردعمل تو افغانستان میں نظر آنے لگا ہے۔ اس حوالے سے ہم پہلے اشارہ دے چکے ہیں کہ افغان امن عمل جب بھی شروع ہوگا ایسے ہی واقعات شروع ہوں گے۔ 16 اکتوبر کو قطر میں افغان گروپوں اور امریکیوں کے مذاکرات کے حوالے سے خبریں آئیں اور ڈرون حملے اور افغانستان میں کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ دونوں کا آپس میں تعلق جوڑنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے اور ایسا چوں کہ بار بار ہوتا ہے اس لیے اسے سمجھنا بہت آسان ہے۔ پاکستانی رہنماؤں کو اس باریک لکیر کو سمجھنا چاہیے اور اپنے اختلافات کو حدود میں رکھنا چاہیے۔