سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔۔۔ جیل سے پھانسی کی سزا تک

380

میاں طفیل محمدؒ
ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ سے بڑھ کر نبی کریمؐ کو جاننے اور پہچاننے والی شخصیت اور کون ہو سکتی تھی۔ ان سے لوگوں نے جب پوچھا کہ نبی کریم کیسے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: آپ چلتا پھرتا قرآن تھے۔ میں بھی مولانا مودودیؒ صاحب کے بارے میں یہی کہتا اور کہہ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی مرحوم، دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔
میں نے 35 سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت، اسلام اور اسوہ رسول سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ میرا ان سے ایک ہی بات پر اختلاف تھا کہ وہ پان کھاتے تھے۔ شہر لاہور میں، مارچ 1953ء میں، جب ہم لوگوں کو گرفتار کرکے لاہور سنٹرل جیل میں لے جایا گیا۔ ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلا اور 14،15 فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے۔ جہاں ہم نماز پڑھ رہے تھے وہاں قریب آکر کھڑے ہوگئے۔ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا‘ اس نے پوچھا: ’’مولانا مودودی صاحب کون ہیں؟‘‘ مولانا نے عرض کیا: ’’میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں۔‘‘ تو اس نے کہا: ’’آپ کو قادیانی مسئلہ کتاب تصنیف کرنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔‘‘ مولانا نے بلا توقف فرمایا: ’’مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔‘‘ اس کے بعد اسی افسر نے کہا: ’’آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔‘‘
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا: ’’مولانا مودودی صاحب تیار ہو جائیں، وہ پھانسی گھر جائیں گے۔‘‘ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پاجامہ تنگ پاجامے سے بدلا، جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتار کر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہایت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہوگئے۔
اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب، مولانا مودودی صاحب کی قمیص، پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے، کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشہ روتے ہوئے کہتے جاتے کہ: ’’مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خدا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے۔‘‘ چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔ اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا: ’’مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے، وہاں کا لباس پہنا، جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے دوسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے۔‘‘
مولانا مودودی صاحب کو پھانسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہوگیا۔ انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہاکہ: ’’پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے۔ پاکستان ان کو انڈو نیشیا بھجوا دے۔‘‘ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ علیٰ ھذا القیاس بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی اور پاکستان میں تو ہر جگہ سے احتجاج ہوا۔ اس احتجاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی صاحب اور مولانا عبدالستار خاں نیازی صاحب کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی یہ عمر قید عملاً 14 سال قید بامشقت کی تھی۔ اگر چہ یہ مارشل لاکورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزاؤں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت برقرار رکھا گیا تھا۔ اس لیے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں۔
جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈووکیٹ کے ذریعے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا، چنانچہ مولانا مودودی صاحب 28 مئی 1955ء کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآ گئے۔
مولانا مودودی صاحب کی سزاے موت کے خلاف رٹ کی اس کاروائی کو اللہ تعالیٰ نے میاں منظور قادر صاحب کو منکر خدا سے ایک مومن و مسلم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیا۔ ہوا یوں کہ اس سلسلے میں ان سے میرا رابطہ اور بے تکلفی ہوئی تو میں نے ایک روز تفہیم القرآن کا پورا سیٹ لے جا کر میاں منظور قادر صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’میاں صاحب! آپ کو تو معلوم ہوگا کہ میں تو خدا کو نہیں مانتا۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’میاں منظور قادر صاحب! آپ نے ہزاروں کتابیں ہر فن میں پڑھی ہیں، ان کو بھی پڑھ ڈالیں۔ آپ کو معلوم تو ہو کہ مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اور کیسے آدمی ہیں؟‘‘ چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کا سیٹ لے کر رکھ لیا۔
میاں منظور قادر صاحب کچھ عرصے بعد جگر کے کینسر میں مبتلا ہوگئے۔ وہ علاج کے لیے سی ایم ایچ لاہور میں داخل ہوگئے۔ میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو کافی مضحمل تھے۔ مجھ سے فرمایا:
Main Sahib, now I have made peace with my lord. Now I am prepared to meet Him.
اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
مولانا مودودی صاحب کو چار مرتبہ گرفتار کیا اور جیل بھیجا گیا۔ پہلی مرتبہ 14اکتوبر1948ء کو جہاد کشمیر کے بارے میں جھوٹا الزام لگا کر اور اس بار مو لانا امین احسن اصلاحی صاحب کو اور مجھے بھی ان کے ساتھ گرفتار کرکے نیو سینٹرل جیل ملتان میں نظر بند رکھا گیا اور 20 ماہ بعد اس وقت رہا کیا گیا، جب ایک اور نظر بندی کے سلسلے میں ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی میں دو مرتبہ ہی چھے چھے ماہ کی تو سیع ہو سکتی ہے۔ اس سے زیا دہ توسیع نہیں ہوسکتی۔ ہم لوگ اس وقت اسی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت تیسری توسیع کے تحت قید بھگت رہے تھے۔ اس لیے ہم لوگوں کو بھی حکومت کو رِہا کرنا پڑا۔
دوسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب لاہور شہر کے مار شل لا کے تحت 28 مارچ 1953 ء کو گرفتار ہوئے تو ان کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور میرے علاوہ جماعت کے 55،56 نمایاں ارکان بھی گرفتار کر لیے گئے۔ مولانا مودودی صاحب کو سزائے موت اور بعد ازاں اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا اور وہ 26 ماہ بعد اس بنا پر رہا ہوئے کہ جس انڈمنٹی ایکٹ کے تحت مولانا کی سزا بر قرار تھی وہی خلاف قانون پایا گیا۔
تیسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب4 جنوری 1964ء کو جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دیے جانے پر گرفتار ہوئے اور ان کے ساتھ جماعت کے 55،56 دوسرے سرکردہ ارکان جماعت بھی گرفتار ہوئے۔ پھر مولانا مودودی صاحب اور دوسرے سب نظر بند بھی 9 ستمبر 1964ء کو اس وقت رِہا ہوئے جب کہ سپریم کورٹ پاکستان نے جماعت پر پابند ی کو منسوخ اور مولانا مودودی سمیت تمام نظربند ارکانِ جماعت کی رہائی کا حکم دے دیا۔
چوتھی مرتبہ مولانا مودودی صاحب 1967ء میں اس لیے گرفتار اور نظر بند کیے گئے کہ عیدالفطر‘ جمعہ یا جمعرات کو پڑ رہی تھی اور جنرل محمد ایوب خاں صاحب کو ان کے بعض درباریوں نے ڈرا دیا تھا کہ عید جمعے کے روز ہوئی تو دو خطبے ہوں گے، یعنی ایک عید کا اور دوسر ا جمعے کا۔ اور ایک دن میں دو خطبوں کا ہونا حکومت کے لیے منحوس اور خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جنرل محمد ایوب صاحب نے اپنے خوشامدی علما کے ذریعے چاند بدھ کی شام کو ہی دکھا دیا تاکہ عید جمعرات کو ہی ہو جائے۔ مولانا مودودی صاحب اور تین چار اور بڑے علماے کرام نے سرکاری چاند کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس پر جنرل محمد ایوب صاحب کی حکومت نے مولانا مودودی صاحب کو گرفتار کرکے راتوں رات لاہور سے لے جا کر بنوں میں نظر بند کر دیا اور دو ماہ بعد ان کو رِہا کیا۔