’’قومی مفاد‘‘ کا منی بجٹ

191

مسلم لیگ ن میں اس وقت دو سوچوں کے درمیان کشمکش ہے ایک عقابی اور سخت گیر سوچ ہے جس کی براہ راست سرپرستی ایک تند خو گروہ کر رہا ہے۔ اس گروہ کو بیرونی تھپکی بھی حاصل ہے۔ یہ گروہ سب کچھ بھسم کردینا اور ٹکرا جانا چاہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ریاستی وسائل کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑے فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ دوسرا گروہ فاختاؤں پر مبنی ہے جو حالات کے دھارے کے اُلٹے رخ چلنے کے مضمرات سے آگا ہ ہے اور یہ حقیقت جان چکا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں انقلاب اس قدر آسان کام نہیں۔ شاہد خاقان عباسی کی حکومت ان دونوں گروہوں کا مجموعہ ہے۔ شاہد خاقان عباسی اپنا آزادانہ تشخص بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ وہ اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ اس وقت تک مستحکم اور مستعار رہی جب تک وہ پیر صاحب پگاڑہ کے پروں کے نیچے رہے جب انہوں نے پیر صاحب کی چھتری کے نیچے سے نکل کر آزاد سیاسی تشخص کی اجنبی راہوں میں قدم رکھا تو جنرل ضیاء الحق نے انہیں پٹخنی دینے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کی۔ اسی لیے شاہد خاقان عباسی ہر تقریر میں نوازشریف کا نام لینا اور ان کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا اعلان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اب منی بجٹ لاکر حکومت نے اس کا عملی ثبوت فراہم کیا کہ وہ نوازشریف کی پالیسیوں ہی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جون میں جب وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو میاں نوازشریف ہی وزیرا عظم تھے۔ بجٹ میں جم کر ٹیکس عائد کیے گئے تھے اب جب کہ نوازشریف وزیراعظم نہیں رہے اور بجٹ کے چند ماہ بعد ہی حکومت منی بجٹ لے آئی اور اس میں سارا زور ٹیکسوں کی صورت عوام کا خون نچوڑنے پر صرف کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے منی بجٹ کے تحت کھانے پینے سمیت سیکڑوں اشیاء پر اسی فی صد تک ٹیکس نافذ کر دیے ہیں۔



حکومت کا موقف ہے کہ درآمدی اشیا کی حوصلہ شکنی اور تجارتی خسارے کوکم کرنے کے لیے یہ قدم ضروری تھا۔ ان اشیا میں موبائل، ایل ای ڈی، ایل سی ڈی، درآمد کی جانے والی نئی اور استعمال شدہ گاڑیاں، پولٹری، گھی، مکھن دودھ، مچھلی، اسپریڈ پنیر، شہد، آلو اور کینو، آٹا، گندم، مکئی، کپڑا، پروفیوم، کتے بلیوں کی خوراک، منرل واٹر، آئس کریم، ٹومیٹو کیچپ، زراعت میں استعمال ہونے والا سامان، کھیلوں کا سامان بھی شامل ہیں۔ گویا کہ عملی طور پر حکومت نے درآمدات کو ناممکن اور ایک عام آدمی کی قوت خرید سے باہر نکالنے کا سامان کیا ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی شے منڈی ہی سے مہنگی ملے گی تو عام آدمی تک مزید مہنگی ہو کر پہنچے گی۔ ایک سی ڈی جیسی شے میں یک لخت بارہ ہزار سے زیادہ کا اضافہ اس کی واضح مثال ہے۔ حکومت نے جن اشیا کی درآمد پر ٹیکس بڑھا دیا ہے وہ تعیشات کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اب انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت بن چکی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کو تو چھوڑیں ٹی وی اور موبائل اب جدید دور کے انسان کی زندگی کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔ حکومت نے ٹیکس میں اضافے کا دائرہ گندم اور مکئی سمیت روز مرہ استعمال کی چیزوں تک بڑھا کر خدا جانے کس کی خدمت کی ہے۔ یہی وہ معاشی ترقی ہے جس کا فخریہ اعلان حکمران کر رہے ہیں۔ حکومت نے معاشی بحران کا حل جسے خود حکمران معاشی بحران بھی نہیں کہتے اور اگر کوئی دوسرا کہے تو ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے، مہنگائی کا سیلاب برپا کر کے نکالا ہے۔ اس سے متوسط طبقے کی کمر مزید جھک جائے گی اور شاید سرمایہ دار کلاس اور حکمرانوں کو اس مہنگائی سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ قرض لے کر معیشت کو آکسیجن ٹینٹ فراہم کرنے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ قرض سے نظر آنے والی معاشی ترقی، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ایک عارضی ترقی ہو تی ہے۔ قرض دینے والے ادارے فیصلہ سازی کا اختیار اپنے پاس رکھتے ہیں وہ قرض کی ہر قسط کے ساتھ شرائط نامہ اور ہدایت نامہ بھی تھماتے ہیں جن پر عمل کیے بنا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ قرض دینے والے یہ تک بتاتے ہیں کہ اس رقم کو فوجی اور دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟



گزشتہ دنوں معیشت کے معاملے پر فوج اور حکومت کے درمیان بھرپور جملے بازی ہو چکی ہے۔ حکومت نے معیشت کی بہتری ہی نہیں بلکہ بہترین ہونے کا دعویٰ کیا تھا دنیا کے چیتھڑوں میں چھپنے والے مضامین اور سروے کے حوالے لاکر معیشت کے بہترین ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر اس دعوے کو چند دن ہی ہوئے تھے کہ منی بجٹ لاکر غریب آدمی کا بھُرکس نکال دیا گیا۔ اس سے پہلے پٹرولیم مصنوعات میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔ حکمران جماعت کو اگلے برس انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت کے عقاب فاختاؤں کے ایجنڈے کے تحت منی بجٹ لائے ہیں۔ وہ فاختائیں جو مسلم لیگ ن کی انتخابی فتح کو ہر قیمت پر ممکن بنانے کے بجائے ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول کے تحت قومی مفاد کے تحت کچھ منصوبوں کو راہ دینے پر یقین رکھتی ہیں۔ مشرف دور میں پیپلزپارٹی بھی قومی مفاد میں پیٹریاٹ گروپ کو ادھار دے کر اس طرح کے منصوبوں کو راہ دے چکی ہے۔ آج پیٹریاٹ گروپ کے وہی کرتا دھرتا فیصل صالح حیات گھوم پھر کر واپس پیپلزپارٹی میں پہنچ چکے ہیں۔ مگر اس طرح کے عوام دشمن بجٹ پیش کرکے حکومت عوام سے کیونکر خیر کی توقع کر سکتی ہے۔ شاید حکومت کی فاختائیں اور عقاب مل کر اب عوام کو اس قدر تنگ کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام پلٹ کر ووٹ کے ذریعے اس کا جواب دیں اور یوں قومی مفاد کے عین مطابق ایک قومی منظر تشکیل پاسکے۔