یہ کیا ہورہا ہے؟

399

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ناجائز اثاثے بنانے کے الزام میں نیب ریفرنس کی سماعت بھی جاری ہے اور ردعمل بھی‘ ماضی کی طرح ایک بار پھر عدالت پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی گئی ہے گزشتہ پیشی پر یہی کچھ ہوا جب لندن سے واپسی پر مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن (ر)صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پہنچی تو لمحوں میں کمرہ عدالت مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا احتساب عدالت کے جج محمد بشیر چودھری نے آپس میں دست و گریباں وکلا کو خاموش کرانے اور کمرہ عدالت کے تقدس کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی تاہم ہلٹر بازی، شور شرابے میں مقدمہ کی باقاعدہ سماعت ممکن نہ رہی اور یوں سماعت ملتوی کرنا پڑی اور ملزموں پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی یہ سارا کھیل اسی لیے رچایا گیا تھا۔ شریف خاندان کچھ بھی کرلے‘ احتساب بھی ہوگا اور فرد جرم بھی لگے گیاور عدالت نے گزشتہ روز ان پر فرد جرم عاید کردی۔ نواز شریف، حسن اور حسین نواز پارک لین اپارٹمنٹس، عزیزیہ اسٹیل ملز اور آف شور کمپنیوں کے ریفرنسز میں جب کہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر صرف پارک لین اپارٹمنٹس کے معاملے میں نامزد ملزم ہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے نیب ریفرنسزکے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواست دائرکی ہے۔ درخواست میں وفاق، وزارت قانون اور نیب کو فریق بنایا گیا ہے اور موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیب نے مختلف اثاثوں پر احتساب عدالت میں تین ریفرنسزدائر کیے، نیب سیکشن 9 کی ذیلی شق 5 کے تحت اثاثے جتنے بھی ہوں ریفرنسز ایک فائل ہوتا ہے اور نیب کی جانب سے مختلف اثاثوں پر تین الگ الگ ریفرنسز دائر کرنے کا جواز نہیں عدالت نیب کو قانون کے تحت اثاثے جتنے بھی ہوں، جرم ایک تصورہوتا ہے جس کے باعث نیب کو 3 ریفرنسوں کو ایک ریفرنس میں بدلنے کا حکم دے۔



نیب ریفرنسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی پیشی پر ہنگامہ آرائی کی رپورٹ نیب ہیڈکوارٹرز کو بھیجی جاچکی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی پر جس جس نے بھی حملہ کیا، انہیں دھکے دے کر روسٹرم سے ہٹایا ان کے بارے میں کارروائی ہوگی؟ مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ نظام عدل کو آزمانے عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں‘ نظام عدل یا نظام عدل کا صبر‘ وضاحت ہونی چاہیے تھی عدالتوں کے باہر مسلم لیگ (ن) کی ہلڑ بازی نے آئندہ اقدامات کو عیاں کردیا ہے یہ ہلڑ بازی کیوں ہوئی؟ کیا یہ چودھری نثار علی خان کو جواب دیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا شریف فیملی کو عدالتوں سے مقدمات کا فیصلہ کرانا ہوگا یا کسی نئے کھیل کی ابتداء ہے جس کا انجام جمہوری عمل لپیٹ دینے پر مکمل ہوگا اب ایک اہم سوال کہ چھوٹے بھائی اور چودھری نثار کے سمجھانے بجھانے کے باوجود نواز شریف محاذ آرائی کیوں چاہتے ہیں؟ لیکن پیشی سے ایک روز شہباز شریف نے بھتیجی کو بلایا اور سمجھایا کہ اگلی پیشی پر کیا کرنا ہے۔ شہباز شریف کو علم ہے نواز شریف کس طرح اقتدار میں لائے گئے تھے۔ 80 کی دہائی میں انہوں نے ایک انگلی کو تھام کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھیں تھیں اور 1999ء تک خفیہ طاقتوں سے ان کا رومانس برقرار رہا 2013ء میں گویا تجدید عہد وفا ہوگیا، پھر ان کی بے چینی کا سبب کیا ہے؟ گھر کے بھیدی اب بنی گالہ کا طواف کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور اب عمران خان کو اس کے داؤ پیچ سکھا رہے ہیں۔
یہ کون نہیں جانتا کہ جدت نے بہت کچھ بدل دیا ہے اب الیکشن میں کامیابی کا بہت زیادہ دارومدار آپ کی موثر اشتہار بازی، میڈیا ہینڈلنگ اور سوشل میڈیا کنٹرول پر ہے اس کام کے لیے کچھ سکہ بند اشتہاری کمپنیاں موجود ہیں جو بد سے بدترین کو بھی خوشنما بنا کر دکھانے کا ہنر جانتی ہیں۔ وہ طاقتیں جو نوازشریف کو 2013ء میں اقتدار دلانا چاہتی تھیں انہوں نے دو مقبول کمپنیوں کو مسلم لیگ (ن)کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کا ٹاسک دیا تھا ’’بدلا ہے پنجاب اب بدلیں گے پاکستان‘‘ جیسے دل چھونے والے جملے ان ہی اشتہاری کمپنیوں کے عالیٰ دماغوں کی تخلیق تھے۔ نوازشریف کو ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے اور وزارت عظمیٰ کا تاج سر پر سجانے کے پیچھے ان اشتہاری کمپنیوں کی کاری گری کا بڑا عمل دخل تھا



ظاہر ہے مسلم لیگ (ن)کی حکومت بن جانے کے بعد ان کو صلہ بھی حصہ بقدر جثہ خوب ملا اور چارسال مصنوعی ترقی کے ڈھول بھی ان کمپنیوں نے خوب پیٹے لیکن نوازشریف کی رخصتی کے بعد جس طرح ان دونوں اشتہاری کمپنیوں کا عمران خان سے عشق جاگا ہے اس سے دکھائی دیتا ہے کہ 2013ء میں نوازشریف کو اقتدار میں دیکھنے کے خواہش مند اب عمران خان پر بازی کھیلنا چاہتے ہیں اور شاید نوازشریف چوں کہ پس پردہ کہانیوں سے آشنائی رکھتے ہیں تو وہی کردار وہ سارے پرزے اب عمران خان اور تحریک انصاف کی مدح سرائی کرتے دیکھ کر وہ اگلی ساری کہانی سمجھ گئے ہوں گے اس لیے شریف خاندان کی بے چینی کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بنی گالہ کی پہاڑیوں کی یاترا میں آتی تیزی کچھ اشارے تو ضرور دے رہی ہے لیکن سارے کھیل کا انحصار عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت جاری ہے عدالت آمدنی پر ٹیکس کتنا دیا بس یہی معلوم کر رہی ہے مگر تفصیلات ہی نہیں مل رہیں جہانگیر ترین نے کچھ نہیں چھپایا یہی ایک بات ہے ان کے وکیل بار بار کہہ رہے ہیں چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جہانگیر ترین کے پاس چاہے زرعی زمین لیز پر تھی، لیکن انہیں آمدن ملی، قانون کے تحت زرعی آمدن حاصل کرنے والا ہر شخص ٹیکس دے گا، جہانگیر ترین کو بھی زرعی آمدن پر 5 فی صد کے اعتبار سے ٹیکس دینا تھا چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے سوال ایمان داری کا ہے، ایمان داری کا پتا کنڈیکٹ سے چلتا ہے، جہانگیر ترین نے مجموعی زرعی آمدن الیکشن کمیشن کو نہیں بتائی وکیل نے کہا کہ ایمانداری ثابت تب ہو گی جب متعلقہ فورم سے فیصلہ جہانگیر ترین کے خلاف آئے جو دلیل جہانگیر ترین کے وکیل دے رہے ہیں یہی دلیل خواجہ حارث اور راجا سلمان اکرم نے نواز شریف کے لیے عدالت میں دی تھی جو تسلیم نہیں کی گئی عدالت عظمیٰ میں عمران نااہلی کیس اب حتمی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور عدالت سماعت مکمل کرنے کے قریب پہنچ گئی ہے فیصلہ کیا ہوگا یہ تو عدالت ہی جانتی ہے کہ اس کا پلان آف ایکشن کیا ہوگا نیب کے نامزد چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کہتے ہیں کہ زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائیں گے نیب کے دائر ریفرنسوں کی موثر پیروی کی جائے گی اور قانون اور شواہد کے مطابق عدالتوں میں نیب کا موقف پیش کیا جائے گا لیکن نیب چیئرمین کے تقرر نامے کی سیاہی خشک ہونے تک نیب کے نئے قانون کا بل پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا جس میں چیئرمین نیب کے اختیارات کم کر دیے جائیں گے بس یہی سوال باقی بچتا ہے یہ کیا ہورہا ہے۔