اسلام آباد کے بارے میں ایک زمانے میں ضمیر جعفری نے کہا تھا اسلام تو اسلام یہ تو آباد بھی کم ہے مگر وقت کے ساتھ یہ ہوا کہ یہ آباد ہوتا گیا اور اس کے مزاج، روایات کلچر پر وہ لوگ حاوی ہو گئے جن کی زندگی میں سوائے سرکاری نوکری کے اور کوئی بڑا خواب ہی نہیں جاگا، یہ تو مرنے کے بعد بھی اپنے گریڈ کی فضیلت سے دست بردار ہونے پر تیار نہیں ہوتے اسی لیے قبروں تک کے لیے گریڈز کا فرق روا رکھنے کو وہ بالکل جائز تصور کرتے ہیں۔ کیا حیران کن بات نہیں ہے کہ عام سے گھروں سے تعلق رکھنے والے ان بیوروکریٹوں کو اس قوم نے اپنے نظام حکومت کی بہتری اور حفاظت کے لیے بڑی احتیاط سے چنا اور ترقی کی ساری منازل طے کروائیں، بہت سے ایسے بھی ہیں جو سفارشوں، منتوں ترلوں اور سیاسی وفاؤں کی یقین دہانیوں کے بعد اقتدار کی بھول بھلیوں اور اختیارات کے وفاقی کوری ڈورز کا حصہ بنے۔ انہوں نے سوائے ذاتی مفادات، پروموشن اور بعد از ریٹائرمنٹ کہیں پوسٹنگ لینے، توسیع نوکری کی کوششوں کے سوا شاید ہی کسی بڑے کام اور دیرپا پالیسی بنانے پر توجہ فرمائی ہو، ہاں جس بات کو اپنے ایمان کا حصہ بنایا وہ یہ کہ وہ نادیدہ سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کی قربت پا لیں۔ بظاہر ایسی کسی چیز کا وجود ہی نہیں مگر اسلام آباد میں سب سے زیادہ تکلیف دہ حقیقت یہی ہے۔ یہاں ٹرانسفر ہو کر آنے والوں کا پہلا ہدف اس نادیدہ سرکل سے تعارف اور قربت ہوتا ہے اور پھر شناسائیوں کی قیمت یہ ہے کہ اپنے شعبے میں ہونے والی ہر انتظامی اور سیاسی پیش رفت اور پالیسی کی اطلاع عین فرض سمجھ کر وہاں دے دی جاتی ہے اور کچھ یوں منظر کشی کی جاتی ہے کہ لگتا ہے یہ ہو گیا تو راتوں رات تباہی کا دیو پھر جائے گا اور مزے کی بات ہے اس پالیسی کے شہ دماغ بھی یہ حضرات خود ہوتے ہیں اور حکومتی ایوانوں سے اس کی داد پہلے ہی وصول کر چکے ہوتے ہیں۔ ریٹائر منٹ تک یہ پرانے بادشاہ گروں کے مصاحب بننے کی نعمت سے ہمکنار ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر سوائے تعلقات بنانے کے شاید ہی ملکی خدمت کی کوئی ایسی مثال ہو کہ جس پر تنہائی میں بھی کبھی ناز کر سکیں یہ سو واقعات بھی سنائیں سبھی انہی کے گرد گھومیں گے مجال ہے کسی قومی اور ملی کارنامے اور دیرپا کام کا آپ نشان بھی نہ پا سکیں گے۔ ان تعلقات کی جہتیں ملاحظہ فرمائیں، سینئر بیوروکریٹس، سینئر صحافی، ریٹائرڈ ملٹری ایسٹیبلشمنٹ، اہل ثروت، اور سیاسی پارٹیوں میں توجہ اور جاہ کی طلب میں ہر حد کو عبور کرنے کے رسیا دوسرے یا تیسرے درجے کے راہنما اور سفارت کار۔ یہ ملکی نظام کی حفاظت اور بہتری کے لیے کبھی چنے گئے تھے اور یہ خودہی کو نظام قرار دے کر باقاعدہ گاڈ فادر بن بیٹھے ہیں۔
جج صاحبان کو اپنے فیصلے میں لکھنے کے لیے میاں نواز شریف کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ گاڈ فادر ہیں۔ وہ بیچارے گاڈ فادر ہوتے تو یوں گلی گلی پوچھتے نہ پھرتے مجھے کیوں نکالا گیا۔ اس پوزیشن کے دعوے دار اور بینیفشری اسلام آباد کے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی مارکیٹ میں جا بجا ملتے ہیں، ان کے کمال فن کا کمال کالم نگاروں، ایڈیٹروں سے دوستانہ اور روزانہ کی بنیاد پر کھانے پر لمبی نشستیں [ان میں چند اینکرز بھی شامل ہو چکے ہیں ] الگ الگ اپنے تصورات کی لمبی چونچوں میں پکڑی لمبی کہانیاں، حاضر سروس بیوروکریٹس سے موثر رابطہ [جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے تعلق سے مستقبل کے کسی منظر نامے میں ان کی شمولیت یقینی ہو جائے گی۔ صاحبان مال وزر جو کلب لائف کو تعلقات کی نئی وسعتوں تک لے جانے کے خوگر اور ماہر ہوتے ہیں وہ بھی اس پاور گیم کے باقاعدہ بینیفشری بن چکے ہیں۔ بہت دلچسپ بات یہ ہے باخبر صحافی ان کی فضیلتیں اور ان کے کھانوں اور محبتوں کے ذائقے بیان کر تے ہیں، رائے عامہ ہموار کرتے ہیں، روز ان سے ملاقاتوں اور دلچسپ واقعات کے نام پر اپنی پی آر کی اہمیت جتاتے ہیں اور وہ ایکسکلیوسو خبریں دیتے ہیں جو ان کی اپنی تلاش کردہ ہوتی ہی نہیں بلکہ فیڈڈ ہوتی ہیں تمام ثبوتوں کے ساتھ کسی سرکاری فائل سے چرا کر ان تک پہنچائی گئی ہوتی ہیں۔ وہ انہی گاڈ فادرز کا کام کر رہے ہوتے ہیں جو وہ خود کبھی بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے اہل قلم کم ہی غور کرتے ہیں کہ ان گاڈ فادروں کی مہارتوں اور مشوروں کی فصل ہمیشہ کسی مقبول جمہوری دور حکومت ہی میں کیوں کاشت ہوتی اور پروان چڑھتی ہے۔
یہ سوئے اتفاق ہے یا حسن اتفاق کہ کسی آمر [فوجی آمر کہنے سے بعض کرم فرما ناراض ہوتے ہیں] یا آصف زردارری جیسے ادوار میں ان کی مشاورت کاری اور حب الوطنی کے نام پر روزانہ کی بنیاد پر ٹیکنوکریٹ حکومت اور مائینس ون فارمولے حرکت میں نہیں آتے یا یوں کہیے کہ کبھی خواب سے بیدار نہیں ہوتے۔ آپ کہاں بھولے ہوں گے مشرف صاحب کے زوال کے دن ہوں یا زرداری کی حکومت کی غیر مقبولیت اور ناکام تریں دور کے شب وروز، کبھی کوئی دھمکی، کبھی کوئی متبادل حکومت کا نعرہ یا کبھی کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کا منجن بنایا اور مارکیٹ میں پھینکا گیا ہو حالاں کہ روز اسکینڈل آتے تھے، کمزور حکومتیں تو ویسے ہی دلدار ہوتی ہیں ایسے اصحاب فن کی کہ جن کی جیبیں خالی بھی ہوں پھر بھی اپنا سودا بیچ لیتے ہیں۔ تاریخ میں ملک غلام محمد، سکندر مرزا اور اسحاق خان تک نہ بھی جائیں، آج کے اسلام آباد میں پاور بروکرز کے نام سبھی جانتے ہیں۔ یہ ماہرین فن سیاسی کمزوری کے شکار ادوار میں اپنے تعلقات اور بادشاہ گری کے تاثر کو خوف بنا کر اقتدار میں معقول حصہ لے کر ان کے محافظ اور ضامن بنتے ہیں۔
جب سیاسی ادوار میں روز اسکینڈل نہ بن رہے ہوں، حاضر سروس لوگ کسی کرپشن اور بد انتظامی کی نشاندہی اور ثبوت دینے کی پوزیشن میں نہ ہوں اور بظاہر سیاسی معاملات پارٹی اور حکومت کے ہاتھ میں ہوں اور یہ حکومتی مشوروں سے باہر ہوں تو کوئی نہیں بتا سکتا کہ ایسے میں یہ معین قریشی کو کہاں سے دریافت کرتے ہیں اور شوکت عزیز کو کس زنبیل سے نکالتے ہیں۔ بلخ شیر مزاری انہیں کیسے بھا جاتا ہے، یہ چاہیں تو جناب روئیداد خان کو سول سوسائٹی کا ہیر اور رہبرو بنا دیں، یہ چاہیں تو جناب احمد ہلالی کو مقبول اور معروف تجزیہ نگار بنا کر اہل سیاست کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر زہر پھیلانے اور سیاسی قیادت کے خلاف زہر اگلنے اور بونے پر لگا دیں، اظہار الحق ہوں یا ریٹائرڈ ائر ماشل صاحبان، مجال ہے ان کے بیانیے میں ایک آدھ انچ کا بھی فرق ہو۔ حد یہ ہے کہ کزشتہ چار برس سے یہ روزانہ کی بنیاد پر قومی حکومت، ٹیکنوکریٹ حکومت، عبوری حکومت کے خاکے بنانے اور بیچنے اور اپنے اپنے دوستوں اور نئے معین قریشیوں کی جگہ پکی کرنے کی نامبارک سعی فرمانے میں لگے ہوئے ہیں۔
کل تو حد ہی فرمادی گئی ایک گاڈ فادر نے گاڈ فادر ان میکنگ سے آنے والے ایام کا ایک اور حسرت انگیز نقشہ بیان فرمایا ہے، یہ وہی ماڈل ہے جو اسلام آباد کلب، گالف کلب، یا ان کے گھروں کے وسط میں واقع اسٹڈی رومز میں بنایا جاتا ہے اور چند صحافی بھائیوں کو یوں تیقن سے بتایا جاتا ہے کہ کل کا سورج انہی کے ایک اور نا آسودہ خواب کی تعبیر لیے طلوع ہوگا اور اقتدار کی خفیہ غلام گردشوں کے مکینوں کی منظوری اور اشیر باد سے لایا جا رہا ہے، یہ انہی کی زبان ہوتی ہے کہ آئندہ کس کی حکومت کا طے کر لیا گیا ہے اور کس کے سر پر ہمارا بنایا ہو غیر سیاسی پلاسٹک کا ہما بٹھایا جائے گا۔ کوئی تجزیہ نگار، کوئی کالم نگار بھی ان سے پوچھنے کی جرآت کیوں نہیں کرتا کہ قبلہ آپ کو اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے کا ٹھیکہ کب ملا، قوم نے کب دست بستہ آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ ہمارے معاملات سیاسی و انتظامی اپنے کنٹرول میں کر لیں اور ہم مسکینوں پر خصوصی شفقت فرمائیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ اہل صحافت اور سیاست خود ان کو بادشاہ گر بنے کا موقع دیتے ہیں، ان کی گفتگووں کو یوں تقدس کا درجہ عطا کرتے ہیں کہ جیسے دنیا ان کے دم قدم اور دانش سے ہی چل رہی ہے، اپنی نوکری کے ایام میں یہ بالعموم تعلقات بنانے اور پوسٹیں لینے میں گزارتے رہے ہیں ،قوم و ملک کی خدمت کے دعوے تب کیوں نہیں پریشان کرتے، اب کیوں اس قدر بے چین اور بے حال ہیں۔ اہل دانش کو ایسے ہر فورم اور ایسی ہر کوشش کے آگے ایک عقلی مضبوط بند بنانے کی کوشش کرنی ہو گی تاکہ یہ روز روز کا تماشا ختم ہو، ان کے فرمودات اور ناکام تجاویز کو ڈسکس کرنے سے بھی احتراز کیا جانا چاہیے۔ شکر ہے سراج الحق سے لے کر آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن، اسفند ولی خان نے ایک ہی مضبوط موقف اپنایا ہے کہ کسی غیر جمہوری قوت کو نہ موقع دیا جائے گا اور نہ ہی اس کا آلہ کار بن کر مٹھائیاں تقسیم ہوں گی کہ جن کی تصویروں سے وہ اپنے غیر جمہوری فعل کو کمزور ترین اور بودی دلیل اور بنیاد فراہم کرنے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔
قوم اور سیاسی قیادت کو قانون اور ملکی سلامتی کے پاٹ پڑھانے والے اس خود ساختہ گاڈ فادروں کی پوری نرسری سے قوم کو یک زبان ہو کر پوچھنا چاہیے کہ آپ کس قانون اور ضابطے سے قوم کی گردن پر بار بار سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں، پوری قومی اسمبلی جو کروڑوں لوگوں کی طرف سے فیصلے کرنے کا اختیار لے کر آئی ہے، آپ اس کے مقابل اور اس کے برابر ہو بھی کیسے سکتے ہیں، سازش کوئی ضابطہ نہیں، قانون اور لوگ پیچھے لگ جائیں تو ملک چھوڑنے پڑ جاتے ہیں، آئین کی بے حرمتی اور بے وقعتی جرم ہے جناب، نہیں یقین آتا تو کمانڈو صاحب سے پوچھ لیں۔ آپ کس ضابطے اور قانون سے پورے سیاسی عمل اور منتخب لوگوں کو ہر بار فارغ خطی دے دیتے ہیں، پارلیمنٹ، سینیٹ صوبائی اسمبلیاں، بلدیاتی ادارے یہی اس قوم کے متفقہ پالیسی ساز افراد اور ادارے ہیں اور یہ مسلسل کئی ماہ سے آپ لوگوں کی ٹیلی فون کالوں، دھمکیوں اور سبز باغوں کو مسترد کرتے آرہے ہیں، ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا، سیاسی لوگ بھی بدل رہے ہیں، مضبوط ہو رہے ہیں، وقت بدل رہا ہے، سابق اور موجودہ حکومتی ملازم اب آقا بننے اور گاڈ فادر بنے رہنے کا شوق جانے دیں، میں جانتا ہوں یہ اتنا آسان نہیں ہے مگر یہ یاد رکھیے کہ ناکام اور ہارے ہوئے لوگ ہی مفاد اور تعلقات کو سازشوں کی بنیاد پر مضبوط بناتے ہیں، انہی کی بنا پر باہم جڑتے ہیں اور یہی لوگ مافیا ہوتے ہیں جو چلتے نظام کو بار بار ڈی ریل کرتے ہیں، اداروں کے اندر نقب لگاتے اور وہاں سے اپنے مخبر بناتے ہیں۔ اس بار اراکین اسمبلی نے چند ماہ میں تیسری بار ان کا حملہ روکا ہے، پوری قومی غیرت کا ثبوت دیا ہے اور اپنی پارٹی سے نہیں ٹوٹے، آپ اب بھی نہیں سمجھے اور مافیائی پیغام میں فرمایا ہے ’’یہ مانے نہیں اس لیے کہانی ختم‘‘۔ آپ کب سے خدا بن بیٹھے ہیں، کیا اس مہربان رب نے زمینی فیصلوں کا اختیار آپ کو سونپ دیا ہے۔ حضور یہ ۲۰۱۷ ہے آپ نے پھر جمہوری نظام کے نیچے بارودی سرنگ بچھائی تو اس بار ہلاکتوں کی تعداد اور مقدار ویسی نہیں ہوگی جیسے آپ کی مرضی سے ہوتی رہی ہے، یہ پاکستان اور اس کے عوام کی کہانی ہے اس بار نہیں لگتا کہ آپ کے کہنے سے یہ ختم ہو جائے گی۔