خاندان شریفہ کے احتساب کا معاملہ کچھ آگے بڑھا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو احتساب عدالت نے نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد صفدر پر بد عنوانی کے الزام میں فرد جرم عاید کردی ہے۔ لندن میں غیر قانونی اثاثے اور جعلی دستاویزات بنانے پر چارج شیٹ کیاگیا ہے۔ فرد جرم کے مطابق 2006ء کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے اور گلف اسٹیل کی فروخت کا معاہدہ بھی درست نہیں۔ اس پر نواز شریف نے اپنا پرانا موقف دوہرایا کہ کیس پاناما کا تھا، فیصلہ اقامہ پر آیا۔ یہ اشارہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی طرف ہے جس کے تحت نواز شریف کو بطور وزیراعظم نا اہل قرار دیا گیا۔ لندن میں گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہاکہ ’’انصاف ہورہاہے یا اس کا خون؟ واپس آکر مقدمات کا سامنا کروں گا‘‘۔ واپسی کا فیصلہ خود نواز شریف کے حق میں ہوگا اور اطلاعات کے مطابق وہ اتوار کو لندن سے آرہے ہیں۔ فرد جرم عاید ہونے پر ان کا کہناتھا کہ غیر موجودگی میں فرد جرم عاید کرنے کی نظیر نہیں ملتی۔ اس مسئلے پر ماہرین قانون کی آرا منقسم ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل سمیت کئی ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس پر فرد جرم عاید نہیں کی جاسکتی تاہم کچھ کا کہناہے کہ احتساب عدالت کے قانون کے تحت غیر موجودگی میں فرد جرم عاید ہوسکتی ہے۔ اس پر احتجاج کے بجائے میاں نواز شریف عدالت کی طلبی پر حاضر ہوجاتے تو نظیر اور بے نظیر کا سوال ہی نہ اٹھتا۔ لیکن وہ اپنی اہلیہ کی علالت کو عدم حاضری کا جواز بنارہے ہیں مگر اب بھی تو آہی رہے ہیں۔ انہوں نے تو اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کو انصاف کا خون قرار دیا ہے اور ہر سزا یافتہ شخض یہی سمجھتا ہے لیکن ہر ایک اس کا اعلان نہیں کرتا کہ عدالتی فیصلے کو نا انصافی قرار دینا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم پورا شریف خاندان اور ن لیگ کے چٹے بٹے توہین عدالت کے شوق میں تمام حدیں پار کرچکے ہیں۔ ابھی تو فرد جرم عاید ہوئی ہے، مجرم نہیں قرار دیا گیا لیکن مریم نواز فرماتی ہیں کہ ’’تما شا نہ بنائیں، احتساب کو انتقام بنانے والوں کا بھی احتساب ہوگا، انتقام سرچڑھ کر بول رہا ہے، ملی بھگت ہے تو سزا سنادیں‘‘۔ مریم نواز کا مخاطب کون ہے، کون تماشا بنارہاہے اور وہ کس کے احتساب کی بات کررہی ہیں؟
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ان کے والد بھی ملی بھگت اور انتقا م کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ مریم نواز کا مخاطب کون ہے، اس کی وضاحت ایک وفاقی وزیر کی طرف سے پیش کی گئی صفائی سے ہوجاتی ہے کہ مریم نواز نے عدالت کے بارے میں یہ باتیں نہیں کہیں۔ تو پھر یہ بھی بتادیں کہ ان سے انتقام کون لے رہا ہے۔ اگر شریف خاندان سمجھتا ہے کہ فرد جرم میں لگائے گئے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں تو بہتر یہ ہے کہ عدالت ہی میں غلط ثابت کیا جائے۔ بجائیاس کے کہ عوام میں اپنی برہمی کا اظہار کیا جائے۔ فرد جرم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب مقدمے کا آغاز ہوگا لیکن جیسی آوازیں آرہی ہیں ان سے لگتا ہے کہ شریف خاندان کو مجرم قرار دیا جاچکا ہے۔ شریفوں کے پاس بہترین وکیلوں کی فوج ہے جو ایک عرصے تک مقدمہ لڑسکتی ہے۔ اب وزارت عظمیٰ سے نا اہلی کا خوف تو رہا نہیں البتہ حکمران پارٹی ن لیگ کی صدارت خطرے میں ہے۔ لیکن اس کا تعلق فرد جرم سے نہیں۔ البتہ خود ن لیگ میں دھڑے بندی واضح ہوگئی ہے اور وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ بارش کا پہلا قطرہ نہیں ہیں۔ انہوں نے نا اہل قرار دیے گئے نواز شریف کو ن لیگ کا صدر بنانے پر تنقید کرتے ہوئے شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پارٹی کی قیادت سنبھال لیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ کتنے لوگ نئے دھڑے کے ساتھ ہیں۔ لیکن میاں شہباز شریف خود بھی تو الزامات کی زد میں ہیں۔ کل کو اگر جسٹس نجفی کمیشن کی رپورٹ سامنے آگئی جو عدالت کے حکم کے باوجود چھپائی جارہی ہے تو شہباز شریف کہاں کھڑے حوں گے۔ علاوہ ازیں حدیبیہ پیپر ملز کے معاملے میں بھی ان کا نام آرہاہے۔ چودھری نثار کے سمجھانے اور خود شہباز شریف کے توجہ دلانے کے باوجود شریف خاندان کی عدلیہ سے محاذ آرائی بڑھتی جارہی ہے اور فیصلوں کو ملی بھگت قرار دے کر ایک مقتدر ادارے کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، نواز شریف نے اسے عدلیہ اور طاقت کا گٹھ جوڑ قرار دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے بڑے جج کہہ رہے ہیں کہ سب سننے اور جاننے کے باوجود صبر اور حوصلے سے کام لے رہاہوں۔ عدلیہ کو نشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں۔لیکن اس کا ہوش کسے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میاں نواز شریف خود سیاسی شہید بننے کے لیے بے تاب ہیں تاکہ جان چھوٹے۔