افغانستان کئی عشروں سے بدامنی کا شکار ہے۔ 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ جمانے کی کوشش کی لیکن اس کی حوصلہ افزائی بھی افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور غارت گری کی وجہ سے ہوئی تھی۔ شاہ ظاہر شاہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد مختلف دھڑوں میں اقتدار پر قبضے کی جنگ شروع ہوگئی تھی اور پھر کمیونسٹ دھڑے نے سوویت یونین کو مداخلت کی دعوت دے دی۔ اس پر کمیونسٹوں کے سوا تمام افغان عوام نے متحد ہو کر سوویت یونین کا مقابلہ کیا اور اسے افغانستان سے پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد طالبان کی حکومت کا مختصر سا عرصہ ایسا آیا جس میں افغانستان کے بڑے حصے میں امن و امان قائم ہوگیا۔ لیکن پھر امریکا کود پڑا اور اسامہ بن لادن اور نائن الیون سانحہ کو بنیاد بنا کر افغانستان میں فوجیں داخل کر دیں۔ نیویارک کے جڑواں میناروں کی تباہی میں افغانوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا لیکن امریکا کے عزائم کچھ اور تھے۔ صورت حال یہ ہے کہ جب بھی افغانستان کے مسئلے پر مذاکرات کی کوشش ہوتی ہے امریکا انہیں سبو تاژ کر نے کی کوشش شروع کردیتا ہے۔ جب مسقط میں مذاکرات کا ڈول ڈالا جارہا تھا اسی وقت یہ خدشات سر اٹھا رہے تھے کہ افغانستان میں دہشت گردی اور امریکی حملے بڑھ جائیں گے۔ گزشتہ چند دن سے افغانستان مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے اور روزانہ ہی لاشیں گر رہی ہیں۔ کبھی اس کی ذمے داری طالبان قبول کرتے ہیں اور کبھی امریکا کی پروردہ داعش۔ ہر واقعہ میں درجنوں انسان نشانہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ تین روز سے تخریبی قوتیں بے لگام ہیں اور امریکا بھی لاشوں کی تعداد بڑھانے میں میزائل اور ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ جمعرات کو قندھار میں افغان نیشنل آرمی کے بیس کیمپ پر خود کش حملہ ہوا جس میں 43افرادشہید ہوئے۔ اس سے دو دن پہلے صوبہ پکتیا میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے اور مسلح جھڑپ میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ امریکا نے بھی مرنے والوں کی تعداد بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا اور پکتیا ہی میں ڈرون حملہ کر کے 12افراد کو شہید کردیا۔ صرف 5دن میں پاک افغان سرحد پر 5ڈرون حملے ہوچکے ہیں جن میں 47افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان نے تو یہ کہہ کر دامن بچا لیا کہ امریکی ڈرون حملے افغانستان کی حدود میں ہوئے، بقول خواجہ آصف، ’’زیرولائن‘‘ پر۔ لیکن پاک افغان سرحد یں اتنی گتھی ہوئی ہیں کہ کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ حملہ کہاں ہوا ہے اور امریکا کئی بار کھلم کھلا پاکستان میں ڈرون حملے کرتا رہا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو کابل اور صوبہ غور میں امام بارگاہ اور سنیوں کی مسجد پر حملے ہوئے، 60افراد جاں بحق ہوئے۔ اگلے ہی دن ہفتے کو پھر ایک تخریبی کارروائی ہوئی اور 15افراد شہید ہوگئے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ تخریب کاری اور حملوں میں اچانک ہی اضافہ کیوں ہوگیا؟ کیا باہر سے کوئی اشارہ ملا ہے یا افغان عسکریت پسندوں کے رہنماؤں کی ہلاکت کا انتقام لیا جارہا ہے؟ کچھ تو ہے۔ فوری طور پر تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکا مزید جم کر بیٹھ جائے گا جو اپنی مدد کے لیے بھارت کو بھی افغانستان میں بلا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر پاکستان سے مذاکرات کرنے آرہے ہیں۔ پاکستان پرتو یہ الزام ہے کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی کا پشت پناہ ہے لیکن افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کچھ اور کہتے ہیں ۔