حکمران لیگ بحرانوں کی زد میں 

484

حکمران مسلم لیگ ن اس وقت بحران پس بحران کا شکار ہے اور قیادت کی صفوں میں کوئی ایسا مرد بحران نظر نہیں آتا جو ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو بحفاظت کنارے لگا سکے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ پارٹی ہی ٹھکانے لگ جائے۔ سیاسی جماعتوں کا بکھرنا یا معدوم ہو جانا کوئی اچھی علامت نہیں ہوتی اور مجموعی طور پر یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ لیکن ایساخود پارٹی رہنماؤں کے حکمت سے عاری اقدامات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس میں کچھ خفیہ طاقتوں یا اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ بھی ہوتا ہے جو ملک و قوم کے ’’ وسیع تر مفاد‘‘ میں اپنے فیصلے صادر کرتی ہیں ۔ ان فیصلوں میں قوم کے مفادات نہیں بلکہ اپنے ہی مفادات ہوتے ہیں ۔ ایسا کر کے یہ باور کرانابھی مقصود ہوتا ہے کہ اصل حکومت کس کی ہے، اقتدار کی کنجی کس کے پاس ہے۔ گو کہ یہ کبھی راز نہیں رہا تاہم جو حکمران اس حقیقت کے آگے سر جھکا دیتے ہیں وہ سکون سے حکومت کرجاتے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف نے اس طرح ساڑھے چار سال گزار ہی لیے اور ان کو من مانی کرنے کا پورا موقع دیا گیا لیکن جب ان کی تبدیلی کا فیصلہ آگیا تو انہوں نے اور ان کے حواریوں نے دلوں کی بھڑاس نکالنی شروع کردی۔ یہ زیادہ خطرناک ہے اور اس سے آئندہ پھر اقتدار میں آنے کا راستہ مسدود ہو رہا ہے۔ اس کی فکرپوری ن لیگ کو ہے لیکن خود کردہ را علاجِ نیست۔ اب جو میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ وفاقی وزیر ریاض پیر زادہ نے تو کھل کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ میاں شہباز شریف کو پارٹی کی صدارت دے دی جائے۔ گو کہ شیخ رشید کو وفاقی وزیر سعد رفیق نے لال حویلی کا لال بجھکڑ قرار دیا ہے لیکن انہوں نے ن لیگ کے ٹوٹنے کی پیش گوئی کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ 70سے 80لوگ ن لیگ سے الگ ہو جائیں گے جن میں وزیر اعظم شاہد خاقان، شہباز، چودھری نثار اور سعد رفیق سمیت کئی لوگ شامل ہیں اور سعد رفیق کہتے ہیں کہ شیخ چلی نامراد رہے گا۔



کون مراد پاتا ہے اور کون نامراد رہتا ہے یہ بہت جلد سامنے آجائے گا۔ شیخ رشید کا گزارہ ایسی ہی پیش گوئیوں پر ہو رہا ہے جو وقت کے حساب سے بدلتی جاتی ہیں لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ن لیگ میں پھوٹ پڑنے کی باتیں بہت سوں کی زبانوں پر ہیں اور اسلام آباد سے نمائندہ جسارت کی خبر کے مطابق تو نواز شریف کو پارٹی کی قیادت سے ہٹایا جا چکا ہے تاہم اس کا اعلان عدالتوں سے سزا ملنے کے بعد ہوگا۔ گویا یہ بھی طے کرلیا گیا ہے کہ نوازشریف کو سزا ہو کر رہے گی۔ حکمران جماعت نے اسٹیبلشمنٹ سے بہتر تعلقات کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔ خبروں کے مطابق میاں نواز شریف آج اتوار کو پاکستان آرہے تھے مگر اب وہ 24اکتوبر کو آئیں گے ۔گزشتہ جمعہ کو ان پر فلیگ شپ ریفرنس میں فرد جرم عاید کردی گئی ہے۔ وہ 2014ء سے 2017ء تک آف شور کمپنی کے سربراہ رہے اور بیٹوں کے نام پر مہنگی جائداد بنائی جو اصل میں انہی کی ہے۔ جائداد کس کی ہے اور کیسے بنائی، یہ معاملہ تو چلتا ہی رہے گا لیکن یہ پوری قوم کے لیے شرمناک ہے کہ ملک کا وزیر اعظم ایک آف شور کمپنی چلا رہا تھا اور دبئی کے اقامے پر ملازمت بھی کررہاتھا۔ حکمران کی حیثیت سے تو انہیں کوئی کاروبار ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی مثال سامنے ہے جن کو سیدنا عمرؓ نے بحیثیت خلیفہ تجارت کرنے سے روک دیا تھا۔نواز شریف نے یہ مثالیں کہاں پڑھی سنی ہوں گی لیکن ایک مثال برطانیہ کی ہے جو ضرور ان کے علم میں ہوگی۔ جب مسز تھیچر برطانیہ کی وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے اپنے شوہر مسٹر تھیچر کی دکان بند کروادی تھی حالاں کہ یہ دکان محض ’’ گروسری‘‘ کی تھی۔ اس انگریز خاتون کو بھی یہ شعور تھا کہ حکمران اور اس کے لواحقین کو تجارت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن نوازشریف سے پہلے خود صدر زرداری یہ کام کرتے رہے ہیں اور اعتراض پر ان کی وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ آئین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ صدر مملکت کاروبار نہیں کرسکتا۔ بہرحال جناب زرداری کا کاروبار تو بڑا وسیع تھااور مختلف النوع۔ ایسا نہ کرتے تو اندرون اور بیرون ملک وسیع املاک و جائداد کے مالک کیسے بنتے۔ اب انہیں اور ان کے برخودار کو نواز شریف کی کرپشن پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ احتساب عدالت نے فرد جرم میں قرار دیا ہے کہ نواز شریف کرپشن کے مرتکب پائے گئے، سزا کے مستحق ہیں۔ میاں نواز شریف انصاف کا خون ہونے کا رونا رونے کے بجائے عدالت میں اپنے ذرائع آمدن ثابت کریں تو بات ختم ہو جائے گی مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ وہ اپنی پارٹی کو بھی بحران میں مبتلا کررہے ہیں اس پر شہباز شریف بھی خوش نہیں ہیں ۔