عراقی کردوں نے اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مار لی

244

منیب حسین

عراق کے نیم خودمختار علاقے کردستان میں ملک سے علاحدگی کے معاملے نے جس غیرفطری رفتار سے زورپکڑا تھا، اسی تیزی سے واپس لپٹنا شروع ہوگیا ہے۔ 25ستمبر کو کردستان میں کرائے گئے آزادی ریفرنڈم اور اس میں اکثریت کی جانب سے علاحدگی کی تائید کے بعد سے اربیل کی مقامی اور بغداد کی مرکزی حکومتوں کے درمیان تناؤ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، جس کا نتیجہ کسی فوجی تصادم کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔ دونوں حکومتوں کی جانب سے سخت بیان بازی کا سلسلہ گزشتہ 4 ہفتوں سے جاری تھا۔ بغداد نے مطالبہ کیا تھا کہ کردستان کی انتظامیہ پہلے ریفرنڈم کے نتائج کو کالعدم قرار دے، اس کے بعد ہی کسی قسم کی بات چیت ممکن ہے۔ جب کہ اربیل حکومت اپنے اعلانِ آزادی پر ڈٹی ہوئی تھی اور مذاکرات کے لیے کوئی پیشگی شرط تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس لیے گزشتہ ہفتےجو کچھ ہوا، وہ جانبین کی اسی ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے۔
اس سارے تنازع میں زیادہ اہمیت کے حامل تیل کی دولت سے مالامال وہ علاقے تھے، جن پر دونوں حکومتوں کا دعویٰ ہے۔ ان متنازع علاقوں میں صوبہ کرکوک سرفہرست ہے، جس کی بابا گرگر آئل فیلڈ میں 13ارب بیرل سے زیادہ کے ذخائر ہیں، جس سے یومیہ 7 سے 10 لاکھ بیرل تک تیل نکالا جاتا ہے۔ یہ اگرچہ بصرہ کے ذخائر اور پیداوار کے مقابلے میں کم ہے، تاہم پھر بھی اسے ملک کے دوسرے بڑے ذخیرے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 16 اور 17 ستمبر کی درمیانی شب عراقی حکومت نے کردستان انتظامیہ کے خلاف جہاں سے عسکری کارروائی کا آغاز کیا، وہ صوبائی مرکز کرکوک شہر ہے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں پیر 17 ستمبر کو عراقی فوج اور اس کے حلیف شیعہ و ایزدی ملیشیاؤں کے اتحاد حشد شعبی نے کرکوک شہر، اس کے مضافات اور تمام تنصیبات کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اگلے روز عراقی فوج نے ترکی کی سرحد کے قریب صوبہ نینویٰ میں سنجار سمیت مخمور، کویر، بعشیقہ اور دیگر کئی علاقے کردوں سے چھینلیے ہیں۔ اسی طرح صوبہ دیالیٰ میں قرہ، تبہ، مندلی، جلولا اور خانقین کے علاقوں پر بھی فوج کا قبضہ ہوچکا ہے۔ یوں کرکوک، نینویٰ اور دیالیٰ میں موجود تیل کے کنویں اور تنصیبات جن پر 2014ء سے کردوں کا قبضہ تھا، اب بغداد حکومت کے زیرانتظام آچکی ہیں۔



عراقی فوج کو اس پیش قدمی کے دوران کہیں بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بعض ذرائع کے مطابق ایک دو مقام پر ہلکی پھلکی جھڑپ ہوئی ہے، تاہم اس بھی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کردوں نے خلاف توقع مزاحمت نہیں کی ہے، جس کی وجہ کردوں میں پھوٹ پڑنا ہے۔ عراقی، عرب اور عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں شائع ہو رہی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عراقی کرد اندرونِ خانہ شدید اختلاف کا شکار ہیں۔ مثلاً: کردوں کو سب سے پہلا اور بڑا نقصان کرکوک ہاتھ سےجانے کی صورت میں ہوا ہے۔ پیر 16 ستمبر کو کردستان انتظامیہ کی ملیشیا ’پیش مرگہ‘ نے اپنی حلیف جلال طالبانی کی سیاسی جماعت ’وطن پرست اتحاد کردستان‘ پر خیانت کا الزام عائد کیا ہے کہ اس کے جنگجو دستوں نے عراقی فوج کے لیے اپنی پوزیشنز چھوڑ دیں اور علاقے سے انخلا کرگئے۔ اسی طرح شمالی عراق میں موجود ترکی کے کرد باغیوں خصوصاً عبداللہ اوجلان کی ’کردستان ورکرز پارٹی‘ (پی کے کے) کے عناصر نے بھی پیش مرگہ کا ساتھ نہیں دیا۔ غالباً تُرک باغیوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ عراقی فوج کے سامنے پیش مرگہ مزاحمت نہیں کرپائے گی اور اگر کردستان ورکرز پارٹی کے عناصر نے پیش مرگہ کا ساتھ دیا، تو انہیں اپنی آخری جائے پناہ یعنی شمالی عراق سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اسی لیے تُرک باغی عراق کی اس داخلی لڑائی میں نہیں کودے، اور یوں پیش مرگہ ایک اور جنگجو طاقت کی حمایت سے محروم رہی۔
واضح رہے کہ کردستان میں اس وقت 2 بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ایک مسعود بارزانی کی ’کردستان جمہوری پارٹی‘ اور دوسری جلال طالبانی کی ’وطن پرست اتحاد کردستان‘۔ یہ دونوں جماعتیں سیکولر ہیں اور کردستان کے موجودہ حکمران اتحاد میں بھی یہی دونوں طاقت ور ہیں، کیوں کہ علاقائی پارلیمان کی کل111 میں سے 59 نشستیں حکمران اتحاد کی ہیں، جن میں سے 38 ’کردستان جمہوری پارٹی‘ کی اور 18 ’وطن پرست اتحاد کردستان‘ کی ہیں۔ تاہم یہ دونوں سیاسی جماعتیں ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف کئی بار اسلحہ بھی اٹھا چکی ہیں۔ یاد رہے کہ 1991ء کی ’خلیج جنگ‘ کے دوران امریکی اتحاد نے شمالی عراق کو نوفلائی زون قرار دے دیا تھا، جب کہ جنگی ضروریات کے تحت صدام حسین نے اس علاقے سے اپنی فوجیں نکال لی تھیں، جس کے نتیجے میں کردوں نے ملک کے شمال میں اپنی خودمختار ریاست قائم کرلی تھی۔ عراقی کردستان میں 1992ء میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا، جس کے نتیجے میں یہی دونوں سیکولر جماعتیں اتحاد کرکے اقتدار میں آئیں۔ تاہم جلد ہی ان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے، یہاں تک کہ 1994ء میں دونوں جماعتوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہوگیا۔ اس دوران اگست 1996ء میں ’کردستان جمہوری پارٹی‘ نے صدام حسین سے مدد مانگی اور عراقی فضائیہ نے ’وطن پرست اتحاد کردستان‘ کے ٹھکانوں پر بم باری کی۔ اس وقت جلال طالبانی کو مجبوراً ایران کی مدد لینی پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ ’وطن پرست اتحاد‘ کا ہمیشہ ایران کی جانب جھکاؤ دیکھنے میں آتا ہے۔ چوں کہ ایران نے عراقی کردستان میں ریفرنڈم اور اس کی آزادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے، اس لیے بہ ظاہر تہران حکومت نے ’وطن پرست اتحاد کردستان‘ پر دباؤ ڈال کر اسے پیش مرگہ کے ساتھ مل کر مزاحمت کرنے سے روکا ہے۔



دوسری جانب امریکا اور اس کے بین الاقوامی اتحاد نے پیش مرگہ کو پابند کیا ہے کہ وہ اس داخلی لڑائی میں مغربی اسلحہ استعمال نہیں کرے گی۔ واضح رہے کہ پیش مرگہ کو یہ اسلحہ 2014ء میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف شروع کی گئی عسکری کارروائی کے لیے فراہم کیا گیا ہے، ورنہ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق کردستان کی نیم خودمختار حکومت کو عالمی منڈی سے اسلحہ خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ اب جب کہ پیش مرگہ اپنے پاس موجود اسلحہ ہی استعمال نہیں کرسکتی، تو وہ عراقی فوج سے کیسے لڑے گی! اسی طرح جرمنی نے بھی اس پیش رفت کے بعد پیش مرگہ کو عسکری تربیت فراہم کرنے کا پروگرام بند کردیا ہے۔ اسی طرح عراقی کردستان کے سب سےبڑے علاقائی حلیف، جس نے بعشیقہ میں اپنا فوجی اڈا بنا رکھا ہے، جہاں پیش مرگہ کو عسکری تربیت اور مشاورت فراہم کی جاتی تھی، ترکی نے بھی کردستان کے ریفرنڈم اور آزادی کی سخت مخالفت کی ہے۔ اس لیے کردستان حکومت اور پیش مرگہ نہ صرف سخت دباؤ میں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے ایک بڑی مصیبت اپنے سر لے لی ہے۔
اسی طرح یہ ریفرنڈم کرانے کے لیے کردستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا، بلکہ کئی کو تو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ رواں برس 6 جولائی کو کرد صدر مسعود بارزانی نے تمام مقامی سیاسی جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا تھا۔ اسی اجلاس میں 25ستمبر کو ریفرنڈم کرانے پر اتفاق کیا گیا۔ تاہم اس اجلاس میں ’جماعت اسلامی‘ اور ’تغییر پارٹی‘ کو بلایا ہی نہیں گیا، جن کے پاس علاقائی پارلیمان کی 30 نشستیں ہیں۔ اسی طرح اس ریفرنڈم کو پہلے دن سے کسی علاقائی یا بین الاقوامی طاقت کی حمایت بھی حاصل نہیں ہوئی۔ لے دے کر صرف ایک اسرائیل نے علانیہ طور پر اس کی بھرپور حمایت کی، جس نے اسے مزید متنازع بنا دیا، جب کہ متحدہ عرب امارات، مصر اور ان دونوں کے اِیما پر سعودی عرب نے مخفی طور پر اس ریفرنڈم کی تائید کی، جو علاقائی یا عالمی سطح پر کردوں کے کسی کام نہیں آئی۔
کردستان حکومت کی ناکامی کی ایک اور وجہ ریفرنڈم کے انعقاد میںجلد بازی کا مظاہرہ تھا۔ خیال رہے کہ ملک میں 3 سال سے داعش کے خلاف ایک بڑی جنگ جاری ہے، جو اب فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ اس صورت حال میں دنیا بھر کی ہمدردیاں بغداد حکومت کے ساتھ ہیں۔ بغداد اور اربیل کے درمیان متنازع صوبے کرکوک میں حویجہ، زاب، ریاض اور عباسی اب بھی داعش کے پاس ہیں، جو صوبے کے کل رقبے کا 33 فیصد بنتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے متنازع علاقے انتظامی طور پر پیش مرگہ، حشد شعبی اور کردستان ورکرز پارٹی میں تقسیم ہیں، جس کے باعث وہاں سلامتی کی صورت حال نہایت خراب ہے۔ جب کہ بہت سے علاقے ایسے ہی جہاں کے لاکھوں باشندے داعش مخالف کارروائی کے باعث اندورنِ ملک بے گھر ہیں اور لاکھوں دیگر باشندے ایسے علاقوں میں پناہ گزیں ہیں، جہاں ریفرنڈم کرایا گیا، تاہم وہ اس میں رائے دہی کے اہل نہیں تھے، لیکن کرد ملیشیا نے زبردستی ان سے ووٹ ڈلوائے۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ کردستان حکومت نے نہ صرف اس ریفرنڈم کے انعقاد میں جلدبازی سے کام لیا، بلکہ غیرذمے داری اور بدانتظامی کا مظاہرہ بھی کیا۔



کردحکومت کا ایک غلط فیصلہ متنازع علاقوں میں ریفرنڈم کا انعقاد کرانا تھا، جس نے بغداد حکومت کے غیض و غضب کو ہی ہوا نہیں دی، بلکہ ان علاقوں میں موجود عرب، ترکمن اور آشوری اقلیتوں کو بھی عدم تحفظ کا شکار کردیا۔ مثلاً: کرکوک تاریخی اعتبار سے ترکمن الاصل ہے، جب کہ صدام حسین کے دوران میں 1997ء کی مردم شماری کے مطابق اس صوبے میں عرب آبادی کا تناسب 72 فیصد ہے۔ اسی طرح نینویٰ اور دیالیٰ کے متنازع علاقوں میں بھی عرب اور ترکمن اقوام کی اکثریت ہے۔ یہ اقوام ریفرنڈم کی مخالف ہیں۔ آئینی طور پر بھی اس قسم کے حساس معاملے میں متنازع علاقوں پر کسی فریق کا تصرف درست نہیں۔ اس لیے ان علاقوں کو ریفرنڈم کے ذریعے کردستان میں شامل کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ البتہ اس اقدام کو کردستان کی مجبوری کہا جاسکتا ہے، کیوںکہ ان متنازع علاقوں میں سے اکثر تیل کے ذخائر رکھتے ہیں اور کردستان جس کی معیشت کا انحصار تیل کی مجموعی قومی پیداوار سے ملنے والے فنڈز پر ہے، علاحدگی کی صورت میں معاشی طور پر برباد ہوسکتا تھا، اس لیے ایک سازش کے تحت کردوں نے ان متنازع علاقوں میں بھی ریفرنڈم کرایا، تاہم بغداد حکومت اور عراقی فوج کے جارحانہ اقدام سے یہ سازش ناکام ہوگئی۔
غرض عراقی فوج کی کارروائی اور متنازع علاقوں سے ہاتھ دھونے کے بعد کردستان کے پاس سوائے پچھتانے کے کچھ نہیں بچا۔ پیش مرگہ کی پسپائی کے بعد ان علاقوں سے کرد شہریوں کا انخلا شروع ہوگیا ہے۔ لڑائی اور انتقام سے بچنے کے لیے ہزاروں کرد خاندان قافلوں کی صورت میں شمال کی جانب روانہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ نقل مکانی پر مجبور یہ خاندان اپنی آزمایش کا ذمے دار بھی مسعود بارزانی کو قرار دیں گے، جس کے باعث کرد حکمران جماعت کی مقبولیت میں کمی واقع ہوگی۔ اسی طرح ناکام حکمت عملی کے باعث پورے کرد علاقے میں مقامی حکومت کو الگ سبکی اُٹھانی پڑے گی، بلکہ صفائیاں تک دینی ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسعود بارزانی نے منگل 17 ستمبر کو کرد قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ کرکوک کے معرکے میں جو کچھ ہوا، اس کے ذمے دار کردستان کی داخلی سیاسی قوتوں کے کچھ افراد ہیں۔ بارزانی نے مزید کہا ہے کہ کردستان کے عوام مطمئن رہیں۔ ہم انہیںیقین دلاتے ہیں کہ ہم اپنی کامیابیوں کے تحفظ اور کرد قوم کا امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے۔