کہیں انتخابات نہ ٹل جائیں

455

نااہل قرار دیے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خلاف فیصلے پر شکوہ کیا تھا کہ نہ دلیل ہے، نہ وکیل ہے اور نہ اپیل۔ میاں صاحب قافیے ملانے میں مصروف ہیں لیکن ان کی حریف پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ میاں صاحب نے تینوں اختیار استعمال کرلیے اب یہ شکوہ بے جا ہے۔ بہر حال یہ سیاسی مناظرہ تو چلتا رہے گا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول کے نائب آصف علی زرداری کا بیان ہے کہ شریف فیملی کا احتساب شاہانہ انداز میں ہورہا ہے، ہمارے جیسا احتساب کیا جائے۔ یہ بات درست ہے کہ جن پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے ان کو بھرپور سیاسی پروٹوکول دیا جاتا ہے لیکن آصف زرداری کو اب یاد بھی نہیں رہا ہوگا کہ ان کا بھی وی آئی پی احتساب ہوتا تھا۔ وہ جیل میں رہ کر بھی آزادی کے مزے لوٹتے تھے اور اپنی اہلیہ سے تنہائی میں ملاقات کے پورے مواقعے فراہم کیے جاتے تھے۔ اس وقت سندھ پر جام صادق علی کی حکومت تھی جو پہلے کبھی زرداری کے سسر ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے معتمد ساتھی اور وزیر تھے۔ گوکہ بعد میں ان کو پیپلز پارٹی کا شدید مخالف قرار دیا گیا لیکن انہوں نے بھٹو کی بیٹی سے حتیٰ الامکان وفا داری نبھائی اور آصف زرداری کے جیل میں ہونے کے باوجود بے نظیر آصفہ کی ماں بنیں۔ اتنا ہی نہیں زرداری صاحب جیل سے نکل کر اپنے بیٹے کی سالگرہ میں بھی شرکت کرلیا کرتے تھے جس کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے لوگ آصف زرداری کی قید کے بارے میں بہت باتیں کرتے ہیں لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ ان کی قید وی آئی پی نوعیت کی تھی جس کا بیش تر حصہ انہوں نے ڈاکٹر عاصم کے کلفٹن والے ہسپتال میں گزارا اور اس کے عوض ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو وفاقی وزیر پٹرولیم بنادیا گیا۔ زرداری کا دعویٰ ہے کہ گاڈ فادر لندن سے مفاہمت کے پیغامات بھیج رہا ہے، ہم نے تمام پیغامات مسترد کردیے، مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا۔



اگر اشارہ نواز شریف اور ن لیگ کی طرف ہے تو پیپلز پارٹی نے ڈسے جانے کے لیے ہر بار نیا سوراخ تلاش کیا ہے۔ دراصل اس وقت آصف زرداری کو پنجاب اپنی جھولی میں گرتا ہوا نظر آرہا ہے اور وہ یہ دعوے بھی کرچکے ہیں کہ آئندہ وزیراعظم ان کا بیٹا بلاول ہوگا اور وہ خود صدر مملکت ہوں گے۔ پنجاب وہ صوبہ ہے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو لیڈر بنایا اور ان کو اقتدار تک پہنچایا۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ بہت کوششوں کے باوجود بھی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا وجود مستحکم نہیں ہوسکا۔ این اے 120 کا ضمنی انتخاب تو حال ہی کی بات ہے۔ پنجاب میں ن لیگ مضبوط ہے لیکن اس میں بھی انحطاط آیا ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی کا کچھ نہ کرنے کے باوجود ووٹ بینک برقرار ہے اور تحریک انصاف کچھ نہ بگاڑ سکے گی گو کہ عمران خان سندھ میں جلسے تو کررہے ہیں، جو صورت حال سامنے ہے اس کو دیکھتے ہوئے عام انتخابات کے نتیجے میں کوئی مستحکم حکومت بنتی ہوئی نظر نہیں آرہی اور امکان یہ ہے کہ مخلوط حکومت بنے گی۔ یہ اختلاط کئی جماعتوں کے مابین ہوگا، یہ بہت جلد واضح ہوجائے گا، لیکن کیا ن لیگ اور پیپلز پارٹی یا ن لیگ اور تحریک انصاف مل کر مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں اور کیا آصف زرداری ڈسے جانے کے لیے کوئی نیا سوراخ تلاش کریں گے؟ ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہے بلکہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوجانا بھی یقینی نہیں ہے۔ جمہوری تسلسل برقرار رکھنے کے لیے انتخابات ہر حال میں اپنے وقت پر ہونے چاہییں۔ رہا احتساب تو وہ بھی ساتھ ساتھ چل سکتا ہے، اس کے لیے انتخابات ملتوی کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ جب ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تھا تو 90 دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا مگر اصغر خان نے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگادیا جو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق کو بھا گیا، چناں چہ نہ احتساب ہوا نہ انتخابات۔ ممکن ہے کہ اب پھر اسٹیبلشمنٹ کو یہی سوجھے۔ عام انتخابات میں بھی اس کا کردار بہت اہم ہوگا، فی الوقت تو خاندان شریفاں کا احتساب ہو ہی رہا ہے اور عمران خان، جہانگیر ترین بھی زد میں ہیں۔



بڑے مقدمات جلد نمٹ جائیں تو دوسرے بھی پکڑ میں آسکتے ہیں۔ اسی اثنا میں جنرل پرویز مشرف کے معتمد خاص اور اس وقت ن لیگ کے وفاقی وزیر نجکاری دانیال عزیز نے میاں نواز شریف کی نااہلی کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے 28 جولائی 2007ء کے فیصلے میں ’’سنگین غلطی‘‘ تلاش کرلی ہے۔ عدالت کے باہر نواز شریف کے حق میں بڑھ چڑھ کر بیانات دینے کے عوض انہیں وفاقی وزیر تو بنا ہی دیا گیا ہے چناں چہ اس کا تقاضا ہے کہ وہ ’’سنگین غلطیاں‘‘ تلاش کرکے احسان چکاتے رہیں۔ دانیال عزیز کا کہنا ہے کہ آئندہ تین چار روز میں وہ اس غلطی کے حوالے سے پٹیشن دائر کریں گے، عدالتی غلطی پر صوبائی اسمبلیوں سے بھی مشاورت کی جائے گی۔ لیکن یہ سنگین غلطی اتنے عرصے کے بعد کیوں نظر آئی، فیصلہ تو 28 جولائی کو ہوا تھا۔ نواز شریف نے بڑے ماہر وکلا کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں ان کو فیصلے کی یہ غلطی نظر نہیں آئی جو دانیال عزیز نے پکڑ لی۔ پٹیشن دائر کرنے کے لیے مزید تین چار روز کا انتظار کرنے کی کیا ضرورت ہے، کل ہی دائر کریں۔ دانیال عزیز نے ہفتے کی شام پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے میڈیا سینٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے 15 صفحات پر مشتمل دستاویزات کی نقول بھی تقسیم کیں جن میں ’’بلیک لا ڈکشنری‘‘ کے حوالے سے اثاثے کی تشریح کی گئی ہے لیکن عدالت عظمیٰ نے جو تشریح کی ہے وہ تو اس ڈکشنری کے کسی ایڈیشن میں نہیں۔ اچھا ہوا کہ دانیال عزیز نے عدالت عظمیٰ کے نہایت تجربہ کار ججوں کو سبق پڑھا دیا۔ دانیال کا کہنا تھا کہ مذکورہ غلطی سے ٹیکس گزاروں کے تمام حسابات، 2013ء کے انتخابی امیدواران اور موجودہ ارکان پارلیمان کے کاغذات نامزدگی زد میں آگئے ہیں۔ دانیال عزیز نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑی ہے۔ لیکن جب وہ جنگ لڑی جارہی تھی تو وہ اس وقت جنرل پرویز کی صف میں تھے۔ لیکن کوئی دلیل، نہ وکیل، نہ اپیل، جو چاہے کہہ لیجیے۔