مقبوضہ کشمیر کی جھیل وشنا سر سے شروع ہو کر آزادکشمیرکے دارالحکومت مظفر آباد میں ختم ہونے والا 245کلو میٹر طویل دریائے نیلم اگلے چند ماہ میں اپنے آخری سرے اور سر سے محروم ہونے جارہا ہے۔ یہ دریا جس کا قدیم نام کشن گنگا ہے ایک قدیم ہمالیائی تہذیب کا رازدان ہے۔ یہ دنیا کی خوب صورت وادی نیلم کے بیچوں بیچ گزرتا اور وادی کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہوا مظفر آباد میں دومیل کے مقام پر دریائے جہلم کا حصہ بنتا ہے۔ وادی نیلم میں نیلگوں پانیوں کا حامل یہ خوب صورت مگر شوریدہ سر دریا جہاں کشمیریوں کی تقسیم کے دکھوں کا گواہ ہے اور وادی نیلم کے بہت سے مقامات پر عوام کی تقسیم کا موجب ہے وہیں یہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تصادم کا تماش بین بھی ہے۔ وادی نیلم کو کہیں پاکستان ہی میں اور کہیں پاکستان اور بھارت میں تقسیم کرتا ہوا یہ دریا نوسہری سے آگے مکمل طور آزادکشمیر کی آغوش میں آجاتا ہے۔ مظفر آباد شہر کو دوحصوں میں بانٹتا ہوا اسی شہر کے ایک کونے میں دومیل کے مقام پر سر ی نگر سے آنے والے دریائے جہلم کا حصہ بن کر اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے۔ خطے کے موسم اور ماحول کو صحت بخش بنانے میں دریا کی سرد لہروں کا بڑا حصہ ہے۔ ماضی میں بارشوں کے باعث یہ دریا بپھر کر مظفر آباد میں کٹاؤ اور تباہی کا سامان بھی اپنے ساتھ لے کر آتا رہا ہے۔ چند برس قبل جب 969 میگاواٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرل پروجیکٹ کی تعمیر کا غلغلہ بلند ہوا تو نوسہری کے مقام پر دریا کا رخ موڑنا بھی اس منصوبے کا حصہ قرار پایا۔ اس مقصد کے لیے اڑتالیس کلومیٹر زیرمین کھودینے کا آغاز ہوا۔ یہ محض ایک دریا کا رخ موڑنا ہی نہیں تھا بلکہ فطرت کے ساتھ پنجہ آزمائی بھی تھی جس کا نتیجہ ماحولیاتی تباہی کی صورت میں بھگتنا فطری تھا۔
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے معاملے پر واپڈا اور آزادکشمیر حکومت کے درمیان کوئی بات ضبط تحریر میں نہیں لائی گی جس کی وجہ سے بہت سے متنازع معاملات کسی مناسب فورم اور پر زیربحث ہی نہیں آسکے شاید یہی وجہ ہے دریا کا رخ موڑنا ہمیشہ ایک متنازع معاملہ بنا رہا اور عوام اور ماحولیاتی ماہرین نے اس پر اعتراض اور احتجاج کیا۔ جس کے بعد دریا کا رخ موڑنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مضر اثرات کو کم ازکم سطح تک رکھنے کی تدبیریں سوچی جانے لگیں۔ ماحولیات سے متعلق ادارے انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے کچھ ماحول دوست اقدامات کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے دریا کا رخ موڑنے کی اجازت دی۔ ماہرین کو خدشہ تھا کہ دریا کا رخ موڑنے سے کہوڑی سے مظفر آباد تک راولپنڈی کی طرح ایک اور ’’نالہ لئی‘‘ وجود میں آجائے گا۔ جو گندگی، تعفن اور آلودگی کے سوا کسی اور کام کا نہیں ہوگا۔ اس سے مظفر آباد سمیت پورے علاقے کا موسم خطرناک حد تک گرم ہو جائے گا۔ اس کے مضر اثرات انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانات اور نباتات پر بھی مرتب ہوں گے اور یوں آنے والی نسلوں کے لیے علاقہ شمشان گھاٹ بن کررہ جائے گا۔ مختلف بیماریاں عام ہو جائیں گی اور پینے کے پانی کے لاتعداد مسائل جنم لیں گے۔ ان اثرات کو کم کرنے کے لیے ماحولیات سے متعلق اداروں نے کچھ متبادل منصوبے تجویز کیے تھے جن میں دریا پر چار مصنوعی جھیلوں کی تعمیر سمیت کئی اقدامات شامل تھے۔ دریا کا رخ موڑنے سے پہلے ان متبادل منصوبوں کو مکمل ہونا تھا مگر یہ منصوبے کاغذوں ہی میں دفن ہو کر رہ گئے اور دریائے نیلم کا سرکاٹنے کے لمحات آن پہنچے۔ اب جب کہ پانی سر سے اونچا ہوگیا تو سول سوسائٹی نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت آزادکشمیر اس ساری صورت حال کو بے بسی کی تصویر بن کر دیکھ رہی ہے۔ حکومت شاید کسی مصلحت اور مجبوری کا شکار ہو مگر اپوزیشن بھی اس معاملے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سول سوسائٹی کا تعاون حاصل کرکے آزادکشمیر کے دارالحکومت اور نواحی علاقوں کو چولستان اور تھر بنانے کی اس کوشش کی مزاحمت کریں۔ قومی منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کا مطلب یہ نہیں مقامی عوام کی رائے کو بلڈوز کیا جائے۔
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ترجمان نے اس تاثر کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے کہ نوسہری کے مقام پر دریائے نیلم کا رخ موڑنے سے پانی کا بہاؤ نہ صرف ختم ہوجائے گا بلکہ مظفر آباد کو پانی فراہم کرنے کا بڑا ذخیرہ ماکڑی واٹر سپلائی بھی متاثر ہوگا۔ اپنے ایک وضاحتی بیان میں ترجمان نے کہا ہے دریا کا پانی مکمل طور پر بند نہیں کیا جارہا بلکہ حکومت آزادکشمیر کے ساتھ معاہدے کے تحت 530کیوسک، 15کیومک پانی دریا میں موجود رکھا جائے گا جب کہ گرمیوں میں دریا کا بہاؤ معمول کے مطابق ہوگا۔ ترجمان نے اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کی تفصیل بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ فوری طور پانی کی قلت پیدا ہونے کا امکان نہیں۔ زہے نصیب کہ واپڈا اور نیلم جہلم ہائیڈرل پاور پروجیکٹ کے ترجمان نے مجبور اور بے بس عوام کو اس قابل سمجھا کہ ایک وضاحت جاری کی گئی مگر یہ وضاحت بدستور وضاحت طلب ہے۔ بیان میں مظفر آباد میں ’’فوری‘‘ طور پر پانی کی قلت ہونے کا امکان نہیں کہہ کر خدشات کو مزید تقویت دی گئی ہے۔ گویا کہ فوری تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا مگر آگے چل کر اس کا امکان ضرور موجود ہے۔ آزادکشمیر کے محکمہ پبلک ہیلتھ نے ایک اعلامیے کے ذریعے عوام کو پانی کی قلت کے پیش نظر پانی کے استعمال میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا تھا جس سے عوام کے ذہنوں میں پہلے سے موجود خدشات کو تقویت ملی تھی۔ اب اس اعلامیے کا تاثر زائل کرنے کے واپڈا اور پروجیکٹ ترجمان نے جو وضاحت کی اس نے خدشات کو کم کرنے کے بجائے بڑھا دیا ہے۔
ماکڑی پلانٹ کے لیے پچیس کیوسک یعنی ایک کیومک پانی درکار ہے مگر پانی کا بہاؤ کم ہونے سے کیا دریا کا پانی پینے کے قابل ہوگا جب کہ اس دریا میں بہت سے مقامات پر کوڑا کرکٹ، گندگی، ملبہ اور گٹر لائنیں ڈال دی گئی ہیں۔ یہ تو پانی کا بہاؤ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ گندگی کا اثر بڑی حد تک زائل ہوجاتا ہے اور باقی کمی واٹر سپلائی کے ٹینکروں میں کیمیکل کی ملاوٹ سے پوری کر کے اسے قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔ گندگی اور آلودگی کا تناسب بڑھ جانے کے بعد تو کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں رہتی۔ سوال یہ ہے کہ دریائے نیلم کا شفاف پانی تو آج کل میں روکا جائے گا، حفاظتی اقدامات اور تدابیر اب سوچی جا رہی ہیں۔ ماکڑی واٹر سپلائی کی توسیع ومرمت کے واپڈا کی طرف سے رقم ابھی تک مختص ہے۔ اس رقم کے استعمال تک عوام کا کیا بنے گا؟ ماحول کو بچانے والے اقدامات کب اُٹھائے جائیں گے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ مبہم وضاحتوں سے عوام کو درپیش حقیقی خطرات دور کیے جاسکتے ہیں نہ ان کے ذہنوں میں کلبلانے والے خوف اور خدشات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت آزادکشمیر اور واپڈا کو اس معاملے پر نظر آنے والے اقدامات اُٹھانا ہوں گے۔