ان کے آتے ہی کمرہ خوشبو سے بھرگیا۔ حسب معمول کاٹن کا سفید کلف لگا سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں ایک لاکھ کا آئی فون تھا۔ کلائی میں گھڑی بھی دوتین لاکھ کی ہوگی۔ چشمے کی مالیت کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔ ہم نے عرصے بعد آنے کا شکوہ کیا۔ مسکراتے ہوئے بولے ’’عیدالاضحیٰ کی تعطیلات میں تمہاری طرف آنے کا کئی بار سوچا لیکن ہمت نہیں ہوئی۔ فلیٹوں کے اس جنگل میں جس میں تم رہتے ہو لگتا ہے لوگوں کو قربانی کرنے کا جنون ہے۔ یہاں ویسے ہی اتنا حبس اور گھٹن ہے کہ سانس لینا دوبھر ہے اس پر عید کے دن قدم قدم پر ذبح ہوتے جانور، ان کا بہتا ہوا خون، جگہ جگہ پڑی ہوئی غلا ظتیں اور ان سے اٹھتا تعفن۔ تصور ہی سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ اس ملک میں اتنی غربت ہے، افلاس ہے لیکن قربانی کے دنوں میں ہر جھگی، ٹوٹے پھوٹے مکان کے آگے پچاس ساٹھ ہزار کا جانور کھڑا ہوتا ہے۔ اگر ہر سال یہی پیسہ اس غربت کدہ کی تعمیر پر لگا یا جاتا رہے تو گھر کچھ رہنے کے قابل تو ہوجائے لیکن کسے پروا ہے۔ یہ لوگ اس طرز زندگی کے عادی ہوگئے ہیں۔ یہاں عقل سے نہیں جذبات سے سوچا جاتا ہے‘‘۔ ہم نے کہا ’’اس معاملے میں تو آپ کا طبقہ بھی کچھ پیچھے نہیں۔ یہ جو پانچ پانچ دس دس لاکھ کا ایک جانور خریدنے کی روایت آپ ہی کے طبقے کی عطا کردہ ہے۔‘‘ بولے ’’آپ درست کہہ رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جہاں نصف آبادی کو صرف ایک وقت کھانے کو دستیاب ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ مریضوں کو ڈاکٹر دستیاب ہیں اور نہ دوا۔ پہلے ایک ایدھی کا دستر خوان تھا جہاں غریب کھانا کھاتے تھے اب شہر میں ایسے پچاس لنگر خانے کھل گئے ہیں۔ ہر رمضان ایسی خبریں آتی ہیں کہ غریبوں میں راشن تقسیم کرتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ سے، دم گھٹنے اور افراتفری سے اتنے لوگ مرگئے۔ اگر ہر سال جانوروں کی قربانی پر خرچ ہونے والا یہ اربوں روپیہ انسانیت کے دکھوں کے ازالے پر خرچ ہو تو کتنا اچھا ہو۔‘‘ ہم نے کہا ’’تمہاری بات ایک ایسا خیر ہے جس میں شر پوشیدہ ہے۔ اگر آج عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی کے معاملے میں یہ بات مان لی جائے تو کل حج کے بارے میں بھی یہی بات کہی جائے گی۔ حج پر تو زیادہ اخراجات آتے ہیں اس پر پابندی سے تو غریبوں کا زیادہ بھلا ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوگی مساجد کی تعمیر پر خرچ ہونے والا کروڑوں روپیہ اگلا ٹارگٹ ہوگا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اتنی وسیع وعریض مساجد کی ضرورت ہی کیا ہے انہیں توڑ کر یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور ضعیف لوگوں کے رہنے کے لیے گھر تعمیر کیے جائیں۔ نماز تو گھر پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فارمولا صرف دینی مصارف پر کیوں اپلائی کیا جاتا ہے۔ روزانہ ہزاروں شادیاں ہوتی ہیں جن پر کروڑوں روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اس وقت کیوں غریب یاد نہیں آتے۔ روزانہ کروڑوں روپے کی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں اس وقت ہسپتال میں قطاروں میں لگے مریضوں کے لیے کلیجے میں درد کیوں نہیں اٹھتا ہے۔ اگر یہ کار خیر اتنا ہی اہم ہے تو جس پچاس لاکھ کی کار میں آپ بیٹھ کر یہاں تک آئے ہیں اس وقت یہ نادر خیال آپ کو کیوں نہیں آیا سفر تو دوچار لاکھ کی کار میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ کیا ضرورت تھی ایک لاکھ کے آئی فون کی، دس بیس ہزار کے سیل فون سے بھی کام چل سکتا تھا۔ یہ سارا روپیہ غریبوں کی فلاح بہبود پر خرچ ہوتا آپ کی روح کو کیسا قرار آتا۔‘‘ مسکراتے ہوئے بولے ’’تمہارے اندر بہت کافر ملا چھپا بیٹھا ہے۔‘‘
تاریخ گواہ امت مسلمہ کے اجتماعی ضمیر نے کبھی ایسی باتوں اور عقلی دلیلوں کو گھاس کی پتی کے برابر حیثیت نہیں دی۔ ہر عہد میں علماء کرام اسلام کے خلاف اٹھنے والے ایسے فتنوں کے مقابل آگئے جن کی بنیاد نام نہاد عقلی دلائل پر رکھی گئی تھی۔ ایسی باتیں کرتے وقت اسلام کے ضابطۂ حیات کی تین نمایاں خصوصیات کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ اول: اسلام کا ضابطہ حیات اسلامی عقیدے کی بنیاد پر استوار ہے۔ دوم: اس میں زندگی کے اعمال کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی ہیں یعنی اس ضابطہ حیات میں زندگی کی تصویر حلال وحرام سے عبارت ہے اور سوم: خوشی کے معنی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ خوشی وہ ہے جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ خوش ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی کے نزدیک عید الاضحی کے تین دن سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے۔ یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے اس کے مقابل کسی عقلی دلیل کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہر ایسی عقلی دلیل جو نصوص کے خلاف ہے دیوار پر ماردی جائے گی۔ جب جب اسلامی فکر میں کوئی کجی آئی یا اسلامی احکامات کے بارے میں غلط فہمی پیدا کی گئی علماء کرام نے پوری جرأت اور استقامت سے اس کا مقابلہ کیا۔ مغل شہنشاہ اکبرکا جاری کردہ دین الٰہی ہو، سرسید احمد خان کی قرآن میں عقلی تحریفات، انبیا کرام اور رسالت مآب ؐ کے معجزات کی عقلی تاویلیں، جنت، دوزخ، فرشتوں اور جنات کا انکار ہو یا مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت، علماء کرام اور امت نے ایسی ہر کوشش کو اڑا کر رکھ دیا۔
رسالت مآب ؐ نے دین ودنیا کا کوئی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا جس میں عملی رہنمائی فراہم نہ کی ہو۔ آپ نے عملی طور پر اللہ کے قوانین کو نافذ کرکے دکھایا۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے ان میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ اسی طرح عالی مرتبتؐ نے مدینہ میں ایک ریاست قائم کرکے بتادیا کہ اسلامی ریاست کیا ہوتی ہے۔ دس برس تک اپنی سنت سے قیامت تک کے لیے آپ نے امت کو بتا دیا اسلام کا طرز حکمرانی کیا ہوگا۔ اسلامی ریاست کا وجود اور اس کے عناصر اس قدر قوی ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی اور طرز حکومت کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ بعد میں خلفاء راشدین نے اسلامی ریاست اور اسلامی طرز حکمرانی کا وہ عملی مظاہرہ کیا کہ تاابد مسلما نوں کو معلوم ہوگیا کہ طرز حکمرانی کے باب میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کیا رضا ہے کیا خوشی ہے۔
نماز، روزے، حج، زکوۃ، قربانی، پردہ، ختم نبوت، توہین رسالت حتیٰ کہ ٹخنے ننگے رکھنے اور ڈاڑھی کے بارے میں علماء کرام جس حساسیت کا اظہار کرتے ہیں وہ اسلام کا فخر اور علماء کی شاندار تاریخ ہے۔ علماء کرام جس طرح ایک ایک سنت کی حفاظت کرتے ہیں اور امت میں سنت کے احیاء کے لیے دن رات کوشش کرتے ہیں وہ اسلام کا ایک روشن باب ہے۔ دنیا جس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے 1924 میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کو آج نوے برس ہونے کو آرہے ہیں، غیراسلامی طرز حکمرانی چاہے وہ جمہوریت ہو، بادشاہت ہو، ڈکٹیٹر شپ ہو عالم اسلام پر مسلط ہے لیکن انہیں مسترد کرنے اور رسول کریم ؐکی طرز حکمرانی کی سنت کو زندہ کر نے کے لیے ہمیں نہ کہیں کوئی حساسیت نظر انداز آتی ہے، نہ فکر اور نہ کوئی جدو جہد۔ کامل دس برس تک رسول اکرم ؐ جس سنت کی قوم کو تعلیم دیتے رہے اس عظیم سنت کے احیا اور غیر اسلامی طرز حکمرانی کو مسترد کرنے کے لیے ہمیں علماء کرام اور عوام کی سطح پرکہیں کوئی کوشش نظر نہیں آتی بلکہ تاویلات کا ایک جہان معانی ہے۔ ہم کیسے اللہ سبحانہ وتعالی کی خوشنودی حاصل کرپائیں گے اگر اسلامی ممالک میں اللہ کا پسندیدہ طرز حکومت نا فذ نہ ہو۔ اللہ اور اس کے رسول ؐکا کلمہ بلند نہ ہو۔ ہم کیسے اللہ کے عذاب سے بچ پائیں گے جب تک اسلامی حکومت قائم نہیں کرتے جس کا قیام مسلمانوں پر لازم ہے۔ جس کے بغیر اسلام کا وجود موثر نہیں ہوسکتا۔ رسالت مآب ؐ آج اپنی ایک سنت کے احیا کے لیے علماء کرام اور امت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میرے نبی ؐکی سنت کو حکومت سے بے دخل کردیا گیا ہے آئیے اس سنت کو پھر سے زندہ کرنے کی جہد کا آغاز کریں۔ اپنی موجودہ اورآئندہ نسلوں کو بتاسکیں اسلامی نظام کیا ہے۔ آئیے مدینہ النبی ؐ کے اس اسلامی طرز حکومت کا تصور ذہن میں لائیں۔ آئیے۔